ایک پیش گوئی کی ناکامی پر دوسری پیش گوئی
مرزا احمدبیگ کے گھر پر کوئی عذاب آیا، نہ کوئی بلانازل ہوئی۔ سلطان محمد نکاح کے ڈھائی سال ہونے پر بھی نہ مرا۔مرزا قادیانی کو بڑی خفت ہوئی کہ یہ پیش گوئی بھی جھوٹ ثابت ہوئی۔ اب اس شخص نے پینترا بدل کر یہ پیش گوئی کر دی کہ ڈھائی سال بعد نہ سہی۔ آئندہ کبھی نہ کبھی محمدی بیگم ان کے نکاح میں آئے گی۔ یہ اعلان مرزا قادیانی نے ۶؍ستمبر ۱۸۹۶ء کو چھپوایاکہ: ’’اب بہتیرے جاہل اس میعاد گزرنے کے بعد ہنسی کریں گے اور اپنی بدنصیبی سے صادق کانام کذاب رکھیں گے۔لیکن وہ دن جلدآتے جاتے ہیں کہ جب یہ لوگ شرمندہ ہوں گے…یاد رکھو عورت مذکورہ کے نکاح کی پیش گوئی اس قادر مطلق کی طرف سے جس کی باتیں ٹل نہیںسکتیں…‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ص۴۴)
قضائے الٰہی سے محمدی بیگم کے والد مرزا احمدبیگ کا اس نکاح کے کچھ عرصہ بعد انتقال ہو گیا۔ اس پر غلام احمدقادیانی نے بغلیں بجانا شروع کیں اورکہا کہ جس عذاب سے ڈرایا تھااس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جس کے آخر میں محمدی بیگم بیوہ ہوکر نکاح میں آئے گی۔ شیخ محمد حسین بٹالوی کے ۴؍جنوری ۱۸۹۳ ء کے خط کا جواب دیتے ہوئے مرزا قادیانی نے لکھا: ’’میری اس پیش گوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعوے ہیں۔ اوّل! نکاح کے وقت میرا زندہ رہنا۔ دوم! نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زند ہ رہنا۔ سوم! پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔ چہارم! اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا۔پنجم! اس تک کہ میں اس سے نکاح کروں،اس لڑکی کازندہ رہنا۔ ششم! پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔‘‘
(مکتوبات احمد ج اول ص۳۵۷،۳۵۸)
محمد ی بیگم کے سلطان محمد سے نکاح کے کئی سال بعد ضلع گورداسپور کی عدالت میں اپنے حلفیہ بیان میںمرزا قادیانی نے کہا:’’جو خط بنام مرزااحمد بیگ کلمہ فضل رحمانی میں ہے، وہ میراہے اور سچ ہے۔ وہ عورت مجھ سے بیاہی نہیں گئی۔ مگر اس کے ساتھ میرا بیاہ ضرورہوگا…وہ عورت اب تک زندہ ہے۔میرے نکاح میں وہ عورت ضرور آئے گی۔ امید کیسی کامل یقین ہے۔یہ خدا کی باتیں ہیں، ٹلتی نہیں۔ہوکررہیں گی۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ئ)
مرزاقادیانی نے یہ اعلان کیا:’’بار بار کہتاہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمدبیگ (سلطان محمد) کی تقدیر مبرم ہے۔اس کا انتظار کرو اور اگر میں جھوٹاہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہ ہوگی اور میری