لیکن کوئی وقت دوران سر سے خالی نہیں گزرتا۔ مدت ہوئی نماز تکلیف سے بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے۔بعض وقت درمیان میںتوڑنی پڑتی ہے۔ اکثر بیٹھے بیٹھے رینگن ہو جاتی ہے اور زمین پر قدم اچھی طرح نہیںجمتا۔قریب چھ سات ماہ یا زیادہ عرصہ گزر گیا ہے کہ نماز کھڑے ہوکر نہیں پڑھی جاتی او ر نہ بیٹھ کر اس وضع پرپڑھی جاتی ہے۔جو مسنون ہے اورقرأت میں شاید قل ہواﷲ بمشکل پڑھ سکوں کیونکہ ساتھ ہی توجہ کرنے سے تحریک بخارات کی ہوتی ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدج اوّل جدید ص۱۰۱)
مرگی کی بیماری
درد ودوران سر کا مرض اتنا شدید ہوگیا کہ خود مرزا قادیانی کو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں مراق(مرگی) کا مرض نہ ہوجائے۔ایسے موقع پر بھی اس شخص نے ایک پیش گوئی داغ دی جو جھوٹ نکلی۔پیش گوئی کرتے ہوئے لکھا: ’’مجھے دو بیماریاں مدت دراز سے تھیں۔ ایک شدید درد سر جس سے میں بے تاب ہوجایاکرتا تھا اور ہولناک عوارض پیداہو جاتے تھے اوریہ مرض قریباًپچیس سال تک دامنگیر رہی اور اس کے ساتھ دوران سر بھی لا حق ہو گیا اور طبیبوں نے لکھا ہے کہ ان عوارض کا آخری نتیجہ مرگی ہوتی ہے۔چنانچہ میرے بھائی مرزا غلام قادر قریباً دو ماہ تک اسی مرض میں مبتلاہوکر آخر مرض صرع میں مبتلاہوگئے اور اسی سے ان کا انتقال ہوگیالہٰذا میں دعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ ان امراض سے مجھے محفوظ رکھے۔ ایک دفعہ عالم کشف میں مجھے دکھائی دیا کہ ایک بلاّ سیاہ رنگ چار پایہ کی شکل پر جو بھیڑ کے قد کے مانند اس کا قد تھا اور بڑے بڑے بال تھے اور بڑے بڑے پنجے تھے،میرے پر حملہ کرنے لگا اور میرے دل میں ڈالاگیا کہ یہی صرع ہے۔ تو میں نے اپنا ہاتھ زور سے اس کے سینہ پرمارا اورکہا کہ دور ہوجا تیرا مجھ میں حصہ نہیں۔ تب خداتعالیٰ جانتا ہے کہ بعد اس کے وہ خطرناک عوارض جاتے رہے اور وہ درد شدید بالکل جاتی رہی، صرف دوران سر کبھی کبھی ہوتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۶۳،خزائن ج۲۲ص۳۷۶)
حقیقت یہ ہے کہ مرزا قادیانی کو مرگی(مرق) کا مرض ہو گیاتھا اور یہ دن بدن شدید ہوتا گیا۔ مرزاقادیانی کے ماننے والے اس مرض کا اعتراف کرتے ہیں۔ البتہ توجیہہ یہ کرتے ہیں کہ یہ دماغی محنت کا نتیجہ تھا۔قادیانیوں کے ۱۹۲۶ء کے ایک رسالہ میں توجیہہ کی گئی کہ: ’’مراق کا مرض حضرت مرزا قادیانی کو موروثی نہ تھا۔ بلکہ یہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہواتھا اور اس کا باعث سخت دماغی محنت،تفکرات،غم اورسؤ ہضم تھا۔ جس کا نتیجہ دماغی ضعف تھا اور جس کا اظہار مراق اور دیگر ضعف کی علامات مثلاً دوران سر سے ہوتاتھا۔‘‘ (ریویو قادیان اگست ۱۹۲۶ئ)