غرض غلام احمدقادیانی کے تمام دعوؤں اوران کے مذہب قادیانیت کے پیچھے یہی مقصد کارفرما رہا کہ انگریزوں کی خدمت کر کے اس وقت کی دنیا کی سب سے طاقتور حکومت سے صلہ حاصل کیاجائے۔مرزا قادیانی نے خود کہا ہے کہ وہ اوران کا مذہب قادیانیت انگریزوں کا لگایاہوااورپروان چڑھایاہواپوداہے۔
غلام احمد قادیانی،جسمانی و ذہنی مریض اورافیون وشراب کاعادی
مرزا غلام احمد قادیانی کو کم عمری ہی سے دو بیماریاںلگ گئی تھیں۔ایک ذیا بیطس کی اور دوسری درد ودوران سر کی بیماری۔ دونوں بیماریاں عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ شدید ہوتی گئیں اور دردودوران سر آخر میں مراق کے مرض(مرگی کی بیماری ) میں بدل گیا۔
ان بیماریوںکا تذکرہ مرزا قادیانی نے خود اپنے خطوط اور اپنی کتابوں میں کیاہے۔ ایک جگہ انہوںنے لکھاہے:
’’…دوسری مرض ذیابیطس تخمیناً بیس برس سے ہے جو مجھے لاحق ہے… ابھی تک بیس دفعہ کے قریب ہر روز پیشاب آتا ہے اورامتحان سے بول(پیشاب) میںشکر پائی گئی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۶۴،خزائن ج۲۲ص۲۷۷)
شکر کی بیماری بعد میں اور بھی شدید ہوگئی۔ خود مرزا قادیانی نے اعتراف کیا: ’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں۔ جو میرے نیچے کے حصہ بدن میں ہے وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اوربسااوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں۔وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ص۴،خزائن ج۱۷ص۴۷۱)
ذیابیطس کے علاوہ مرزا قادیانی دستوںکی یعنی اسہال کی بیماری کا شکار تھے۔ ملفوظات میں اس کا ذکر ہے: ’’باوجودیکہ مجھے اسہال کی بیماری ہے او ر ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں۔ مگر جس وقت پاخانہ کی حاجت ہوتی ہے تو مجھے افسوس ہی ہوتاہے کہ ابھی کیوں حاجت ہوئی۔‘‘
(منظور الٰہی ص۳۴۸، ۳۴۹)
سرمیںشدیددرداور چکرکی بیماری بھی بڑی شدید تھی۔اس کااظہارغلام احمد قادیانی نے اپنے ۵؍فروری ۱۸۹۱ء کے ایک خط میں کیاہے: ’’حالت صحت اس عاجز کی بدستورہے۔ کبھی غلبہ دوران سر اس قدر ہوجاتا ہے کہ مرض کی جنبش شدید کا اندیشہ ہوتا ہے اور کبھی یہ دوران کم ہوتاہے۔