اس وقت کے قیصروکسریٰ کی گورنمنٹوں میں ہوتی تو وہ بادشاہتیں اب تک قائم رہتیں۔ ‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۴،خزائن ج۳ص۱۳۰حاشیہ)
’’اورسلطنت برطانیہ کے ہمارے سر پر بہت احسان ہیں۔ سخت جاہل اورسخت نالائق وہ مسلمان ہے جو اس گورنمنٹ سے کینہ رکھے۔ اگر ہم ان کا شکر نہ کریں تو پھر ہم خد ا تعالیٰ کے بھی نا شکرگزار ہیں۔ کیونکہ ہم نے جو اس گورنمنٹ کے زیرسایہ آرام پایا اورپارہے ہیں، وہ آرام ہم کسی اسلامی گورنمنٹ میں بھی نہیں پا سکتے، ہرگز نہیں پاسکتے۔‘‘(ازالہ ص۵۰۹،خزائن ج۳ص۳۷۳)
غلام احمد قادیانی نے برطانوی حکومت کی تائید میں اشتہارات اورکتابچے لکھ کر تقسیم کروائے۔ ایک اشتہار میں لکھا: ’’ہمیں اس گورنمنٹ کے آنے سے (یعنی مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے اور ملک کے غلام بن جانے سے) وہ دینی فائدہ پہنچا کہ سلطان روم کے کارناموں میں اس کی تلاش کرنا عبث ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۹۵)
غلام احمدقادیانی کو یہ آرزو رہی ہے کہ انگریز انہیں غلامانہ وفاداری کا زیادہ سے زیادہ صلہ دیں۔ ۱۸؍نومبر ۱۹۰۱ء کو لکھتے ہوئے اپنی اس غلامانہ خدمت کی اہمیت جتائی یہاں یہ بات بتانا مناسب ہوگا کہ جہاد کے اسلامی فلسفہ و تعلیم کی مخالفت میں اپنا ایک رسالہ انگریزوں کی مدد سے مرزاقادیانی نے مصر میں چھپوایا اورتقسیم کروایااور انگریزوں نے اپنے پٹھو اخبارات میں اس کو شہرت بھی دی۔ اس رسالہ پرمصر کے مشہور رہنماء اور اہل قلم علامہ رشید رضا کے اخبار ’’المنار‘‘ نے تنقید چھاپی۔ اس تعلق سے مرزا قادیانی نے ایک اشتہار چھپوایا اورذیل کی عبارت اس اشتہار سے لی گئی ہے۔
’’میں نے مناسب سمجھا کہ اس رسالہ کو بلاد عرب یعنی حرمین اور شام اورمصر وغیرہ میں بھی بھیج دوں۔ کیونکہ اس کتاب کے ص۱۵۲ میں جہاد کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا گیا اور میں نے ۲ ۲برس سے یہ فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں جہاد کی مخالفت ہو،اسلامی ممالک ضرور بھیج دیا کرتاہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۴۴۳)
اور آگے لکھتے ہوئے حرف مدعابھی قلم پرآگیا: ’’بارہا بے اختیار دل میں یہ بھی گزرتا ہے کہ جس گورنمنٹ کی اطاعت اور خدمت گزاری کی نیت سے ہم نے کئی کتابیں مخالف جہاد اور گورنمنٹ کی اطاعت میں لکھ کر دنیا میں شائع کیں اورکافر وغیرہ اپنے نام رکھوائے۔اس گورنمنٹ کو اب تک معلوم نہیں کہ ہم دن رات کیا خدمت کر رہے ہیں…میں یقین رکھتاہوں کہ ایک دن یہ گورنمنٹ عالیہ میری خدمات کی قدر کرے گی۔‘‘ (ایضاً ص۴۴۵)