قائم ہو جائے۔ برطانیہ کی اس وقت کی ملکہ کوئین وکٹوریہ کو انعام و اکرام کے لئے عرضیاں پیش کرتے ہوئے مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی ان خدمات کو گنوایا۔ اپنے ایک اشتہار مورخہ۲۰؍ستمبر ۱۸۹۷ء میں لکھا: ’’پھر میں اپنے والد اوربھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا۔ تاہم ۱۷ برس سے سرکار انگریزی کی امداد وتائید میں اپنے قلم سے کام لیتاہوں۔ اس سترہ برس کی مدت میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کیں۔ ان سب میں سرکار انگریزی کی اطاعت اور ہمدردی کے لئے لوگوں کو ترغیب دی اورجہاد کی مخالفت کے بارے میں نہایت مؤثر تقریریں لکھیں اور پھر میں نے قرین مصلحت سمجھ کر اس مخالفت جہاد کو عام ممالک میں پھیلانے کے لئے عربی اور فارسی میں کتابیں تالیف کیں۔ جن کی چھپوائی اور اشاعت پر ہزارہا روپے خرچ ہوئے اور وہ تمام کتابیں عرب اوربلاد شام اورروم اورمصر اوربغداد اور افغانستان میں شائع کیں۔ میں یقین رکھتاہوں کسی نہ کسی وقت ان کااثر ہوگا۔‘‘
اس اشتہار میں آگے لکھا: ’’پھر میں پوچھتاہوں کہ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد اور حفظ امن و جہادی خیالات کے روکنے کے لئے برابر۱۷ سال تک پورے جوش سے،پوری استقامت سے کام لیا۔ کیا اس کام کی اوراس خدمت نمایاں کی اوراس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں،کوئی نظیر ہے؟ اگر میں نے یہ اشاعت گورنمنٹ انگریزی کی سچی خیر خواہی سے نہیںکی تو مجھے ایسی کتابیں عرب اوربلاد شام اورروم وغیرہ بلاد اسلامیہ میں شائع کرنے سے کس سے انعام کی توقع تھی۔‘‘ (کتاب البریہ ص۶،۷، خزائن ج۱۳ص۶،۷،۸)
انگریزوں کی خوشامد
مرزاقادیانی نے انگریزوں کی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور تعریف میں عجیب باتیں لکھیں۔ مسلمان کے دماغ میں ایسی باتوں کاگزر تک نہیں ہوسکتا۔ مرزا قادیانی نے لکھا:
’’میرا یہ دعویٰ ہے کہ تمام دنیا میں گورنمنٹ برطانیہ کی طرح کوئی دوسری ایسی گورنمنٹ نہیں جس نے زمین پر امن قائم کیاہو۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ جو کچھ ہم پوری آزادی سے اس گورنمنٹ کے تحت میں اشاعت حق کرسکتے ہیں۔ یہ خدمت ہم مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں بیٹھ کر بھی ہرگز بجا نہیں لاسکتے۔ اگر یہ امن و آزادی اور بے تعصبی آنحضرت ﷺ کے ظہور کے وقت عرب میں ہوتی تو وہ لوگ ہرگز تلوار سے ہلاک نہ کئے جاتے۔ اگر یہ امن، یہ آزادی اور بے تعصبی