دجال ہی کر سکتاہے۔ ایک امتی کے تو نہیں کر سکتا۔ پھر جمالی طور کی خدمت اور اخلاقی کمالات کی عملی صورتیں بھی ظاہر ہو چکی ہیں۔ خدا کے باغی اورنافرمان طاغوتی حکومت کی غلامی، خیر خواہی، وفاداری اور اس کے قائم و باقی رہنے کے لئے ہر طرح کی جدوجہد، سراسرباطل پرستی، اہل باطل کی خوشامد وچاپلوسی، زمانہ پرستی، دنیا طلبی، یہی وہ اخلاقی کمالات ہیں جو خانہ ساز نبوت کے امتیازی اوصاف ہیں۔ ان ہی اخلاقی کمالات میں یہ بھی داخل ہے کہ سرے سے اہل باطل سے جہاد ہی موقوف کردیا جائے۔
’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیاجاتاتھا۔ خدا کے حکم سے بند کیاگیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پہ تلوار اٹھاتا ہے۔ اپنا نام غازی رکھتاہے۔ وہ رسول کریمﷺ کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے فرما دیا تھا کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کاکوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کاجھنڈا بلند ہوگیا۔بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طورپر نہ پوشیدہ طو رپر جہاد کی تعلیم ہرگز جائز نہیں سمجھتا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
جہاد کا حکم شریعت کا ایک اہم حصہ ہے۔ قرآن مجید جہاد کی ہدایات اور ترغیبات سے بھرا ہواہے۔ حضرت رسولؐ پر یہ کتنا بڑا بہتان ہے کہ آپﷺ نے جہاد سے منع فرما دیا تھا۔ حالانکہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کے لئے لڑتارہے گا۔
’’لاتزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق (ابوداؤد ج۱ ص۲۴۷)‘‘{میری امت کا ایک طبقہ ہمیشہ حق کے لئے لڑتارہے گا۔}نیز آپ ﷺ فرمارہے ہیں: ’’جاہدوا المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم(ابوداؤد، نسائی، ودارمی‘‘{مشرکین سے جہاد کرو اپنے مالوں سے اور جانوں سے اورزبان سے۔}
علاوہ ازیں آپﷺ نے آخرین امت کا اجر، اوّلین امت کے برابر ہو جانے کی جوبشارت دی۔ اس کی وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ اولین کی طرح امر بالمعروف ونہی عن المنکر کریں گے اور اہل فتن سے قتال کریںگے۔’’یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویقاتلون اہل الفتن(البیہقی)‘‘{حقیقتاً جو مومن ہے وہ ایک مرد مجاہد ہوتا ہے}جیسا کہ حضرت رسول کریمﷺ فرماتے ہیں ’’ان مومن یجاہد بسیفہ ولسانہ(الاستیعاب ابن عبدالبر)‘‘{دین کی وہ تعلیم قرآنی اورنبوی نہیں ہو سکتی جس سے مجاہدانہ جذبات پیدا نہ ہوں۔}(آج دینی تعلیم سے نہ باطل افکار کی تردید کی قابلیت پیدا ہوتی ہے اور نہ باطل کے