دروغ گورا حافظ نباشد
دیگر:
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دانمش زخطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانم
از خطاہا ہمیں است ایمانم
بخداہست ایں کلام مجید
ازدہان خدائے پاک ووحید
آن یقینے کہ بود عیسی را
بر کلامے کہ شدبرد والقاء
واں یقیں کلیم برتورات
واں یقیں ہائے سیدالسادات
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
ہر کہ گوید دروغ ہست لعین
(نزول المسیح ص۹۹،۱۰۰،خزائن ج۱۸ص۴۷۷،۴۷۸)
’’کم نیم‘‘نہیں بلکہ ان سے بڑھ چڑھ کر آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا۔
دیگر: ’’آمد نزد من جبرئیل علیہ السلام ومرابرگزیدہ وگردش دادانگشت خودراہ اواشارہ کرد خداتراازدشمنان نگہ خواہد داشت‘‘ (مواہب الرحمن ص۶۳، خزائن ج۱۹س۲۸۲)
ایک طرف تو مرزاقادیانی یہ کہتے ہیں: ’’اوربالکل غیر معقول اوربیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اورزبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۹۰،خزائن ج۲۳ص۲۱۸)
اب ذراغور کیجئے کہ مرزا قادیانی کی اصل زبان توپنجابی رہی۔ مگر ان کو وحی و الہام عربی و فارسی میں ہوتارہا۔ اگرچہ فارسی وعربی انہوں نے سیکھ لی تھی۔ مگر ظاہر ہے کہ وہ ان کی اصلی زبان تو نہیں تھی۔ اس کے باوجود زیادہ الہام ان کی بیشتر وحی عربی زبان میں نازل ہوتی ہے اور بقول ان کے ’’یہ بالکل غیر معقول اوربیہودہ ‘‘امر ہے۔
اب تصفیہ طلب یہ ہے کہ یہ غیر معقولیت اور بیہودگی کی نسبت کس کی طرف؟ وحی نازل کرنے والے کی طرف یا جو نزول وحی و الہام کا ادّعا کرتا ہے اس کی طرف؟ عرض خدمت ہے کہ دونوں طرف۔ اس لئے کہ جب سر پرشیطان مسلط ہو تو دونوں کی غیر معقولیت و بیہودگی میں کیا شک و شبہ۔ مزید برآں وحی کا ایک سلسلہ بزبان انگریزی بھی نازل ہوا اورظاہر ہے کہ مرزا قادیانی انگریزی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ اس لئے وہ اپنے الہامی جملوں کا مطلب ایک ہندو سے اور پھر اپنے ایک مرید سے دریافت کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
’’مخدومی و مکرمی اخوایم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، بعد