میں جھوٹے پیدا ہوں گے۔}اس کے بعد فرماتے ہیں:’’یزعم انہ نبی اﷲ‘‘{ وہ نبی اﷲ ہونے کا ادّعا کرے گا۔}اس کے بعد خاتم النّبیین کا مطلب کس طرح واضح ہے:’’وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی (ابوداؤد ج۲ ص۱۲۷ ترمذی ج۲ ص۴۵)‘‘{اور میں نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والا ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
جس قرآنی لفظ کی تشریح و توضیح حضرت معلم حکمت ﷺ نے فرمادی ہو اور اس پر تمام امت کا اجماع ہوگیا۔ اس کے خلاف اپنی طرف سے نئی بات پید ا کرنا اور اپنے کو ’’نبی اﷲ‘‘ ثابت کرنا، کیا’’کذابون‘‘کی صف میں داخل ہونا نہیں ہے؟ مگر گمراہی کو ہدایت سمجھ کرگمراہی میں مبتلا ہونے والوں سے جب یہ سنت الٰہی متعلق ہوجاتی ہے:’’قل من کان فی الضلالۃ فلیمدد لہ الرحمن مدا (مریم:۷۵)‘‘{کہہ دیجئے جو گمراہی میں مبتلا ہیں رحمن ان کی گمراہی کو بڑھا دیتا ہے۔}توضلالت،گمراہی میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا جاتاہے۔ چنانچہ:
’’ہمارامذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے۔ یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں کے دین کو ہم مردہ کہتے ہیں تو اس لئے کہ ان میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا۔ اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتا تو پھر ہم بھی قصہ گوٹھہرتے۔‘‘
(ارشاد مرزاغلام احمدقادیانی مندرجہ اخبار بدر قادیان۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
کتنا بڑادھوکہ دیاجارہاہے۔حقیقت کو بالکل الٹ دیاگیا۔ ظاہر ہے کہ تقریباً چودہ سو برس سے دنیا کے کسی حصے میں کوئی نبی، فرستادئہ الٰہی کا ظہور نہیں ہوا۔ نیز دین اسلام کا اصلی سر چشمہ ’’القران والسنۃ‘‘تلبیس وتحریف اور انسانی دست برد سے بالکل محفوظ ہے۔ جو نہ صرف دین اسلام کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔ بلکہ یہ الٰہی انتظام خدا کی طرف سے اس حقیقت کا اعلان ہے کہ اب جتنے مدعیان وحی ونبوت پیدا ہوںگے۔ وہ سب کاذب سمجھے جائیںگے۔ مگر دجل و افتراء کا یہ حال ہے کہ جس دین میں کامل درس انسانیت، مکمل سبق بندگی ہے۔ اس میں دیگر افترائی ادیان کی طرح صرف قصہ گوئی ثابت کی جاتی ہے۔ کذب وافتراء کے مزید نمونے دیکھئے۔
’’وہ دین ،دین نہیں، اورنہ وہ نبی،نبی ہے۔جس کی متابعت سے انسان اﷲ تعالیٰ سے اس قدرنزدیک نہیں ہوسکتا کہ مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہوسکے۔ وہ دین لعنتی اورقابل نفرت ہے جو یہ سکھاتاہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کاانحصار ہے اور وحی الٰہی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے…سو ایسا دین بہ نسبت اس کے کہ اس کو رحمانی کہیں،شیطانی کہلانے کا مستحق ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۹،خزائن ج۲۱ص۳۰۶)