سے ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۸،خزائن ج۱۹ص۵۲)
آثار سے تو ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر قوم کفار سے جہاد کریں گے مگر یہ کیسے عیسیٰ ہیں جن کو اپنی قوم کی غلامی کافخر حاصل ہے اور جن کے پاس وحی آئی ہے کہ انگریزوں سے جہاددین اسلام کے بالکل خلاف ہے۔بانی جماعت اور جماعت بار بار اپنے اس عقیدہ کا اعلان تو کرتی ہے کہ وہ حضرت محمدﷺ کو خاتم الانبیاء مانتی ہے۔ مگر خاتم الانبیاء ہونے کی جو توضیح کی جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو وہ کس قدر گمراہ کن ہے: ’’جس کامل انسان پر قرآن شریف کا نزول ہوا…اور وہ خاتم الانبیاء ہے۔ مگر وہ ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے روحانی فیض نہیں ملے گا۔ بلکہ ان معنوں سے ہے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا… اوربجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت مل سکتی ہے۔ جس کے لئے امتی ہونالازمی ہے اور اس کی ہمت اورہمدردی نے امت کوناقص حالت میں چھوڑنا نہیں چاہا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۷، خزائن ج۲۲ص۲۹)
بقول محترم مؤلف کتاب ’’قادیانی مذہب۔‘‘
’’اگر مرزاقادیانی نبی نہ مانے جائیں تو امت محمدیہ ؐ ناقص قرار پاتی۔‘‘
خاتم النّبیین کی مزید تشریح ملاحظہ ہو: ’’خاتم النّبیین کے بارے میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ خاتم النّبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ بند ہو جاتاہے اورمصدقہ سمجھا جاتاہے۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ حصہ پنجم ص۲۹۰، مرتبہ منظور الٰہی قادیانی لاہوری)
خاتم النّبیین کی یہ توضیح قرآن میں تحریف معنوی اور تفسیر بالرائے کی کتنی قابل افسوس مثال ہے۔ تفسیر بالرائے کرنے والے کے متعلق حدیث شریف میں وارد ہے کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
’’من قال فی القران برأئہ فلیبّوامقعدہ من النار (ترمذی ج۲ ص۱۲۳)‘‘{جو شخص قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہے وہ درزخ میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ ے۔}
خاتم النّبیین کی تشریح حضرت خاتم النّبیین ﷺ نے فرما دی ہے۔ جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ سلسلہ نبوت ختم کردیاگیاہے۔
’’وختم بی النبیون (مسلم ج۱ ص۱۹۹)‘‘{اورختم ہوگئے مجھ سے پیغمبر۔}
نیز جو ارشاد گرامی ہے:’’سیکون من امتی کذابون‘‘{عنقریب میری امت