۴… وحی و نبوت۔
۵… مسیحیت کا ادّعا۔
۶… خدا سے مکالمہ و نزول جبرئیل۔
آئندہ مفسدانہ منصوبوں کو روبہ عمل لانے کی تمہید ملاحظہ ہو:’’اور محدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتا ہے۔ گو اس کے لئے نبوت تامہ نہیں۔ مگر تاہم جزئی طورپر وہ ایک نبی ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خدائے تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا ایک شرف رکھتاہے۔ امورغیبیہ اس پرظاہر کئے جاتے ہیں اور رسولوں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیا جاتاہے اور مغز شریعت اس پر کھول دیا جاتاہے اوربعینہ انبیاء کی طرح مامور ہو کرآتاہے…اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک موجب سزا ٹھہرتاہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۱۸،خزائن ج۳ص۶۰)
گویا تیرہ سو برس تک شریعت صرف پوست ہی پوست تھی۔ مغز شریعت اب ظاہر ہوا ہے۔ پوست شریعت تویہ تھا کہ طاغوتی حکومتوں سے مقابلہ و مقاطعہ کرنے اور فتنہ و فساد کی اصلاح کرنے والے افراد پیداہوں اورمغز شریعت یہ ہے کہ طاغوتی حکومت کی خیر خواہی اور اس سے سچی محبت اور اس کی کامل تابعداری کی جائے۔ ’’نعوذباﷲ من شرالشیطان‘‘اب رفتار ترقی دیکھتے جائیے۔
’’اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیاگیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طورپر اس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک دوسرے سے بشدت مناسبت و مشابہت رکھتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۴)
ارتقاء کا ایک اورقدم: ’’یہ بات سچ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی وحی و الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۰۷)
شیطان کے بند فریب میں ایک اوربند کا اضافہ: ’’مگر جب وقت آگیا تو وہ اسرار مجھے سمجھائے گئے۔ تب میں نے معلوم کیا کہ میرے اس دعوے مسیح موعود ہونے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ وہی دعویٰ جو براہین احمدیہ میں بار بار بہ تصریح لکھاگیاہے۔‘‘
(کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۱)
دیگر: ’’اور یہی عیسی ہے جس کا انتظار تھا اورالہامی عبارتوں میں مریم اور عیسیٰ سے میں ہی مراد ہوں۔ میری نسبت ہی کہاگیا کہ اس کونشانی بنادیںگے اورکہاگیا کہ وہی عیسی بن مریم ہے جو آنے والاتھا۔ جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔ یہی حق ہے اورآنے والا یہی ہے شک محض نافہمی