کچھ فرشتے دن کو اور جمع ہوتے ہیں یہ سب نماز فجر اورعـصر میں پھر چڑھ جاتے ہیں (آسمان کی طرف) فرشتے جو پہلے تمہارے پاس تھے۔}
۷… ’’فان قالو انحن لانقول ان جبرئیل جسم ینتقل من مکان الی مکان انما نقول المراد من نزول جبرئیل ہوزوال الحجب الجسمانیۃ عن روح محمد ﷺ حتی یظہر فی روحہ من المکاشفات والمشاہدات بعض ماکان حاضرا متجلیا فی ذات جبرئیل قلنا تفسیر الوحی بھذا الوجہ ہو قول الحکماء واما جہور المسلمین فھم مقرون بان جبرئیل جسم وان نزولہ عبارۃ عن انتقالہ من عالم الا فلاک الی مکۃ‘‘{اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جبرئیل علیہ السلام کے جسم نہیں ہے جو ایک جگہ سے منتقل ہو کر دوسری جگہ جائیں اور ان کے نازل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ رسول اﷲﷺ کی روح سے جسمانی پردہ اٹھ جانے کی وجہ سے جبرئیل کی ذات میں جو تجلیات موجود تھیں وہ مکاشفہ اور مشاہدہ کے طور پر رسول اﷲ ﷺ کی روح پروارد ہونے لگیں تو اس کا جواب ہے کہ نزول اوروحی لانے کے یہ معنی یونانی فلسفیوں (جو بالکل ملحد و دہریہ تھے) کے نزدیک ہیں۔ تمام دنیا کے مسلمان اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام مجسم ہوکر عالم افلاک سے مکہ میں اترتے تھے۔}
مرزائیت
۱… ’’پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اس کی گرمی اور روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہر ایک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یادساتیرا اور وید کی اصلاحات کے موافق ارواح کو اکب سے ان کو نامزد کریں یا نہایت سیدھے اور موحدانہ طریق سے ملائک اﷲ کا ان کو لقب دیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۳۲،۳۳، خزائن ج۳ ص۶۷،۶۸)
۲… ’’وہ نفوس نورانیہ(یعنی فرشتے) کواکب و سیارات کے لئے جان کا ہی حکم رکھتے ہیں اور ان کے جدا ہو جانے سے ان کی حالت وجودیہ میں بکلی فساہ ماہ پایا جانا لازمی اور ضروری امر ہے۔‘‘ (توضیع المرام ص۳۸،خزائن ج۳ص۷۰)
۳… ’’فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جو ان کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں۔ ایک ذرہ برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے۔‘‘ (توضیح المرام ص۳۲، خزائن ج۳ص۶۷)