۴… ’’درحقیقت یہ عجیب مخلوقات(یعنی فرشتے) اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار گیر ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۳۲، خزائن ج۳ص۶۷)
۵… ’’محققین اہل اسلام ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائکہ اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اترتے ہیں اور یہ خیال ببداہت باطل بھی ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۳۰، خزائن ج۳ص۶۶)
۶… ’’جبرئیل جو ایک عظیم الشان فرشتہ ہے اور آسمان کے ایک نہایت روشن نیرّ(آفتاب) سے تعلق رکھتاہے…وہ فرشتہ اگرچہ ہر شخص پر نازل ہوتا ہے جو وحی الٰہی سے مشرف کیا گیا ہو۔ نزول کی اصل کیفیت جو صرف اثر اندازی کے طور پر ہے۔ نہ واقعی طورپر۔ ‘‘
(توضیح المرام ص۶۸، خزائن ج۳ص۸۶)
۷… ’’اس وقت جبرئیل اپنا نورانی سایہ اس مستعد دل پر ڈال کر ایک عکسی تصویر اس کے اندر رکھ دیتاہے۔ تب جیسے اس فرشتہ کا جو آسمان پر مستقر ہے جبرئیل نام ہے۔ اس عکسی تصویر کا نام بھی جبرئیل ہی ہوتا ہے۔ یا مثلاً اس فرشتہ کا نام روح القدس ہے تو عکسی تصویر کا نام بھی روح القدس ہی رکھا جاتا ہے۔ سو یہ نہیں کہ فرشتہ انساں کے اندر گھس آتاہے۔ بلکہ اس کا عکس آئینہ قلب میں نمودار ہوجاتاہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۷۰، خزائن ج۳ ص۸۷)
۸… ’’پس یہی مثال جبرئیل کی تاثیرات کی ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ مرتبہ کے ولی پر بھی جبرئیل ہی تاثیر وحی کی ڈالتاہے اور حضرت خاتم الانبیاء محمدﷺ کے دل پر بھی وہی جبرئیل تاثیر وحی کی ڈالتا رہا ہے۔‘‘ (ایضاً ص۷۱ ، خزائن ج۳ص۸۸ نوٹ… ان تمام عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ مرزا قادیانی کے نزدیک ملائکہ(یعنی فرشتے) مستقل وجود نہیں رکھتے بلکہ نفوس فلکیہ اور ارواح کواکب کا نام ہے۔ اسی لئے وہ اپنے اپنے مقامات سے ذرا برابر ادھرادھر نہیں جا سکتے۔ مرزائیت کے اس عقیدہ کی تردید چونکہ آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کھلے الفاظ میں کر رہی تھیں اوربار بارجبرئیل کے لئے نزول وغیرہ ثابت کررہی ہیںتو نزول کی تاویل کی کہ مراد نزول سے صرف اثر اندازی ہے۔ واقعی نہیں یعنی حضرت جبرئیل حضورﷺ کے پاس نہیں آتے تھے۔ بلکہ اپنے مقام پر رہتے ہوئے حضورﷺ پر اثرڈالتے تھے(جیسا کہ ملحدوں اور فلسفیوں نے لکھاہے) مسلمان ان عبارتوں کو ذرا غور سے دیکھیں کہ مرزا قادیانی اور مرزائی ملائکہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ پھر مسلمان کیسے کہا جا سکتا ہے۔ عتیق الرحمن آروی!
۸۸