نووارد… مگر وہ بڑی آمدنی کی جگہ تھی۔
بابو صاحب… جی ہاں! آمدنی تو وہاں بہت تھی۔ مگر جان کا وہاں ہر وقت خطرہ تھا۔ ہمارے حضرت صاحب ہمیشہ فرمایاکرتے تھے کہ جان ہے تو جہاں ہے اور روپیہ تو ہزاروں کمایا اور اب اس کا پتہ بھی نہیں۔
نووارد… بابوصاحب بے ادبی معاف!آپ دو محکموں میں بھرتی ہیں۔ ایک دینے والا ایک کھینچنے والا۔ نتیجہ یہی ہوناتھا۔ مگر شکر ہے کہ آپ خیریت سے وہاں سے نکل آئے۔ کسی نے کہا کہ جان بچی لاکھوں پائے۔
بیوی… (اندر سے نکل کر )بابو جی السلام علیکم!
نووارد… وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ ! راضی تو ہو؟
بیوی… جی ہاں خدا کاشکر ہے۔ زندہ ہوں اور مرگ کے دن پورے کررہی ہوں۔ الحمد ﷲ علی کل حال۔
نووارد… مگر تم تو پہچانی نہیں پرتیں۔ وہ جسم تمہارا کہاں گیا؟آنکھوں میں تمہارے گڑھے پڑ گئے۔ سر میں ایسی جلدی سفید آگئے۔ یہ کنپٹیاں تمہاری کہ رہی ہیں۔
بیوی… جی ہاں!مگرانسان بڑا بے شرم ہے۔ موت اپنے ہاتھ میں نہیں کہ انسان مرجاوے:
چار باید زیستن ناچار بایدزیستن
بابو صاحب… لو چھوڑو ان باتوں کو اورکھانا نکالو۔ گاموں پانی لا اور ہاتھ دھلا۔
نووارد… غلام احمد ادھر بابو صاحب کے ہاتھ دھلا۔ میرے ہاتھ تو دھلے ہوئے ہیں۔
بیوی… (کھانا چن کر)کیوں بابو جی آپ کیوں کھانا نہیں کھاتے؟ قاضی صاحب آپ نے انہیں اطلاع نہیں دی تھی؟
قاضی صاحب… جی میں نے ان کو اطلاع تو دے دی تھی۔ مگر انہوں نے نہ مانااور کچھ کیک ویک جو ساتھ لائے تھے۔ وہی چائے کے ساتھ کھانے کی جگہ کھائے ہیں۔
بابو صاحب… جی کیک سے کیاہوتاہے۔ آپ آگے بڑھیں اور کم از کم ہمارے شریک تو ہو جاویں۔
بیوی… بابوصاحب آپ اصرار نہ کریں۔ میں ان کی عادت سے واقف ہوں۔ ایک دفعہ جب یہ اپنا کھانا کھالیں تو پھر کوئی سونے کا نوالہ بھی دے تو یہ نہیں کھایاکرتے۔مگر یہ انہوں نے ظلم کیا کہ جب ان کو ہماری طرف سے اطلاع پہنچ چکی تھی تو پھر کھانا کھا کر کیوں آئے؟