نہیں کئے گئے۔بلکہ اس کے نزدیک واقعی اورتحقیق حال اسی طرح ہے۔ اس کے ثبوت میں بھی ہم اسی کی عبارات ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
۱… ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ص۲۹۰حاشیہ)
اس عبارت میں فقرہ’’حق بات یہ ہے‘‘کو خیال کیاجاوے۔
۲… ’’ہم مسیح ابن مریم کو بیشک ایک راست باز آدمی جانتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے اکثر لوگوں سے البتہ اچھاتھا۔ واﷲ اعلم!‘‘
(دافع البلاء ٹائٹل بار ص۳، مطبوعہ ضیاء الاسلام ۱۹۰۲، خزائن ج۱۸ص۲۱۹)
اس عبارت پر مرزا ہی کا نوٹ ملاحظہ ہو:
٭… ’’یاد رہے کہ یہ جو ہم نے کہاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے بہت لوگوں کی نسبت اچھے تھے۔یہ ہمارا بیان محض نیک ظنی کے طورپرہے۔‘‘
۳… ’’اسی طرح اوائل میں میرایہی عقیدہ تھا کہ مجھ کومسیح سے کیانسبت ہے۔ وہ نبی ہے اور خدا کی بزرگ مقربین میں سے ہے اوراگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتاتھا۔ مگربعد میں خدا کی وحی بارش کی طرح میرے پرنازل ہوئی۔اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم رہنے نہ دیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۹،خزائن ج۲۲ص۱۵۳)
۴… ’’جن لوگوں نے ان کوخدابنایا ہے جیسے عیسائی یا وہ جنہو ں نے خواہ مخواہ خدائی صفات انہیں دی ہیں۔ جیساکہ ہمارے مخالف اور خداکے مخالف نام کے مسلمان وہ اگر ان کو اوپر اٹھاتے اٹھاتے آسمان پر چڑھادیںیا عرش پربٹھادیں یا خدا کی طرح پرندوں کا پیدا کرنے والا قرار دیں تو ان کواختیار ہے۔ انسان جب حیا اور انصاف کو چھوڑ دے تو جو چاہے کہے او ر جو چاہے کرے لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔‘‘
(دافع البلاء ٹائٹل بار۴ مطبوعہ ضیاء الاسلام ۱۹۰۲ئ، خزائن ج۱۸ص۲۲۰)
ان عبارتوں کو پڑھنے کے بعد کون ہے جو یہ تردد کرسکے کہ مرزا نے جو کچھ لکھا وہ بطور الزام لکھا اور کس کی مجال ہے جو یہ کہہ سکے کہ عیسائیوں کو الزام کودیا ہے جب کہ وہ اپنے نزدیک اپنے خیال اورعقیدہ کے موافق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسا ہی سمجھتاہے جیسا کہ اس نے لکھا اور اس اخیر عبارت میںصاف صاف بتلادیا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن کے موافق اگرچہ آسمان پر چڑھادیں یا قرآن کے موافق پرندوں میں خدا کے حکم سے جان ڈالنے والا قرار