’’اورکون سی جگہ ہے جہاں ملحد تاویل نہ کر سکے اورکون ہے جو تاویل کرنے والے کی زبان ہانکنی بند کردے۔‘‘
اپنے کلام کی ادھیڑ بن کرکے ہر شخص کو تاویل کرلینے کی گنجائش ہے لیکن کیا ایسی لچر اور پوچ تاویلوں سے رہائی ہوسکتی ہے؟ہرگز نہیں۔اب مرزائی جماعت کتنا ہی اپنے کلام کی توجیہات اور تاویلیں کریں ان کو توبہ اوررجوع الیٰ الحق کے سوا چارہ نہیں اور نہ وہ بغیر اس کے کفر کی لعنت کے طوق سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مضل مرزا نے ضروریات اور متواترات فی الدین کا انکار کیاہے۔ جن میں تاویل کی گنجائش نہ تھی۔
وَھَلْ فِیْ ضَرُوْرِیَّاتِ دِیْنٍ تَأَوَّلُٗ
بِتَحْرِیْفِہَا اِلَّا کَکُفْرِعِلَانٖ
’’اور کیا ضروریات دین میں تحریف کرکے تاویل کرنا صریح کفر نہیں ہے؟‘‘
وَمَنْ لَمْ یُکَفِّرْمُنْکِرِیْھَا فَاِنَّہٗ
یَجُرُّ لَہُ الْاِنْکَارَ یَسْتَوِیَانٖ
’’جو ضروریات دین کے منکر کی تکفیر نہیں کرتا وہ انکار ضروریات کو اپنے سر لیتا ہے۔‘‘
وَمَاالدِّیْنُ اِلَّابَیْعَۃُٗ مَعْنَوِیَّۃُٗ
وَمَاھُوَ کَالْاَنْسَابِ فِی السَّرَیَانٖ
’’دین تو صرف ایک بیعت معنویہ ہے وہ نسبوں کی طرح چلنے والا نہیں ہے۔‘‘
ان دو اشعار میںمرزا اوراس کے ماننے والی جماعت کے کفر کی تیسری وجہ بیان کی گئی ہے۔ ختم نبوت اور ختم رسالت اورختم شریعت کا مسئلہ ایک اجماعی اورقطعی اورضروریات و متواترات فی الدین سے ماناگیاہے۔ جس کا منکر ماول قطعاً کافر ہے۔ جس کے متعلق ہم علماء کی عبارتیں نقل کرتے ہیں۔ امام غزالی رحمہ اﷲ کتاب الاقتصاد میں فرماتے ہیں: ’’ان الامۃ فہمت من ہذااللفظ انہ افہم عدم نبی بعدہ ابداوعدم رسول بعدہ ابداوانہ لیس فیہ تاویل ولاتخصیص ومن اولہ بتخصیص فکلامہ من انواع الہذیان لا یمنع الحکم بتکفیرہ لانہ مکذب لہذاالنص الذی اجتمعت الامۃ علی انہ غیر مأوّل و لامخصوص‘‘ (کتاب الاقتصاد ص۱۲۳ ملخص)
’’امت نے اس لفظ سے سمجھا یعنی آیت(ولکن رسول اﷲ خاتم النّبیین)اوراﷲ نے سمجھادیا کہ کوئی نبی آپ کے بعد کسی وقت اور کوئی رسول آپ کے بعدکسی وقت اوریہ کہ نہ اس میں تاویل ہے اور نہ تخصیص اور جو کوئی تاویل کرکے تخصیص کرے اس کا کلام جنون کی قسم ہے جواس کی تکفیر کے حکم کونہیں روکتاکیونکہ وہ ایسی آیت کا مکذب ہے جس پر بلاتاویل وتخصیص امت کا اجماع ہے۔‘‘