’’من حسن کلام اھل الاہواء وقال معنوی اوکلام لہ معنی صحیح ان کان ذلک کفرا من القائل کفر المحسن‘‘ (بحرالرائق ج۵ ص۱۲۴)
’’جس نے اہل بدعت کے کلام کی تحسین کی۔ یا کہا کہ کوئی معنوی امر ہے یا اس کے کلام کے معنے صحیح ہیں پس اگر یہ امر کہنے والے کے لئے کفر ہے تو تحسین کرنے والاکافرہے۔‘‘
ابن حجر اپنی کتاب اعلام میں فرماتے ہیں: ’’من تلفظ بلفظ الکفر یکفرفکل من استحسنہ او رضی بہ یکفر، الاعلام لابن حجر‘‘ جس شخص نے کلمہ کفر کہا، کافر ہوا۔ پس جو شخص اس کو اچھا سمجھے یا اس سے راضی ہو کافر بن جائے گا۔
کَاَنِّیْ بِکُمْ قَدْ قُلْتُمُوْا لِمَ کُفْرُہٗ
فَہَاکُمْ نُقُوْلًا جُلِّیَتْ لِمُعَانٖ
’’غالباً تم مجھ سے پوچھو گے وہ کیوں کافر ہے۔ تو تم لے لونقلیں اس کے کفر کی جو باتوفیق کے لئے ظاہر ہیں۔‘‘
اس شعر میں مؤلف دام ظلہ کا مقصود اس امر کو سمجھانا ہے کہ آئندہ اشعار میں جھوٹے مدعیان نبوت کے واقعات اوران کے متعلق علماء امت کے فیصلہ جو تنظیم کئے گئے ہیں۔ وہ مرزا کے نظائر ہیں جن سے مرز ا قادیانی کے لئے بھی کفر کا فتویٰ لیا جائے۔
فَمَا قَوْلُکُمْ فِیْ مَنْ حَبَا مِثْلَ ذٰلِکُمْ
مُسَیْلَمَۃَ الْکَذَّابَ اَھْلَ ھَوَانٖ
’’تمہارا اس شخص کے حق میں کیاعقیدہ ہے جس نے۔ مسیلمہ کذاب(مدعی نبوت) کے حق میں ایسی مہربانی کی جو مسیلمہ ذلیل اور رسواہے۔‘‘
فَقَالَ لَہُ التَّاوِیْلُ اَوْقَالَ لَمْ یَکُنْ
نَبِیًّا ھُوَ الْمَہْدِیُّ لَیْسَ بِجَانٖ
’’پس وہ کہنے لگاکہ مسیلمہ کے لئے بھی تاویل ہے یا کہا کہ مسیلمہ نبی نہ تھا وہ تو مہدی تھا مجرم نہیںہے۔‘‘
وَھَلْ ثَمَّ فَرْق ُٗ یَسْتَطِیْعُ مُکَابِرُٗ
وَحَیْثُ ادَّعٰی فَلْیَاتِنَا بِبَیَانٖ
’’اورکیا کوئی منہ زورمسیلمہ اوراس جھوٹے نبی میں فرق کر سکتاہے اور اگر کوئی مدعی فرق ہے توبیان کرے۔‘‘
وَکَانَ عَلٰی اَحْدَا ثِہٖ وَجْہُ کُفْرِہٖ
تَنَبُّؤَہٗ مَشْہُوْرَ کُلِّ اَوَانٖ
’’مسیلمہ کے کفر کی وجہ سے باوجود اور بہت سے مخترعات کے دعوائے نبوت ہی مشہور وجہ ہر وقت ہوئی ہے۔‘‘
کَذَافِیْ اَحَادِیْثِ النَّبِیِّ وَبَعْدَہٗ
تَوَاتَرَ فِیْمَا دَانَہُ الثَّقَلَانٖ