ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے ماسواء جس قدر ملہم اورمحدث ہیں تو وہ کیسے ہی جناب الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں۔ ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔‘‘
(حاشیہ تریاق القلوب ص۱۳۰،خزائن ج۱۵ص۴۳۲)
۳… ’’اور خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اسی کی طرف سے ہوں۔ اس قدر نشان دکھلائے کہ وہ ہزار نبی پر تقسیم کئے جائیں توان کی بھی نبوت ثابت ہو جائے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۱۷، خزائن ج۲۳ص۳۳۲)
۴… ’’پس یاد رکھو کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۸، خزائن ج۱۷ص۶۴)
ان صاف اورصریح عبارتوں کے بعد جس کے دماغ میںذرہ برابر بھی عقل ہے۔ جس کے دل میں کچھ بھی انصاف ہے، یہ کہنے کی جرأت نہیںکرسکتا کہ مرزا نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا وہ تو مجدد ہے یا محدث ہے۔ مگرایسا شخص جس کے قلب پر حق تعالیٰ نے ضلالت اورگمراہی کی مہر لگا دی ہو جس کی قوت باصرہ اور سامعہ کو سلب کردیاہو اور:’’ختم اﷲ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوہ‘‘کا مصداق بن گیاہو۔ اب ہم لاہوری جماعت سے پوچھتے ہیں کہ جب مرزا نے صاف صاف بآواز بلند یہ کہہ دیا کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا ان ہی نبیوں کی شان ہے جو خدا کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لے کر آئے ہوں اور پھر مرزا قادیانی بھی اپنے نہ ماننے والے کو کافر کہتے ہوں تو وہ بھی صاحب شریعت اور احکام جدیدہ لانے والے ہوئے اور ان کو بھی نبی نہ ماننے والا کافر اور جہنمی ٹھہرا۔ لہٰذا لاہوری جماعت مرزا کے قول کے مطابق کافر اور جہنمی ہوئی کیونکہ وہ مرزا کونبی نہیں مانتی اورمحض مجدد یا محدث ماننے سے ان کو کفر سے نجات نہ ملی۔ اب دوسری جانب اہل اسلام سے بھی اپنے متعلق فتویٰ سن لیں۔
وَمَنْ ذَبَّ عَنْہٗ اَوْ تَأَوَّلَ قَوْلَہٗ
یُکَفَّرُ قَطْعًا لَیْسَ فِیْہِ تَوَانٖ
’’اور جس نے اس کے قول کی تاویل یا اس کی طرفداری کی۔ وہ بھی یقینا بلا توقف کافر کہا جائے گا۔‘‘
کسی مدعی نبوت اور یقینی کفر بکنے والے کے قول میں تاویل کرنا یا اس کے قائل کی تحسین کرنا بھی ویساہی کفر ہے جیساکہ اس کلمہ کفر کا کہنا کفر ہے۔ بحرالرائق میں ہے۔