خوان تھے۔ دیکھو براہین احمدیہ کا ریویو جو مولوی محمد حسین ان کے مکفر نے لکھا۔ اس میں انہوں نے کس قدر مرزا قادیانی کی اس کتاب کی تعریف کی اورکس قدر ثبوت ان کی نیک نیتی کا ہے یہ مانی ہوئی بات ہے کہ شریعت ظاہر ہے۔ باطن نہیں۔
چنانچہ مرزا قادیانی بھی یہ دیکھئے(حقیقت الوحی ص۱۸۰، خزائن ج۲۲ ص۱۸۶)پرلکھتے ہیں ’’شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے۔‘‘ علمائے اسلام نے جب ظاہر حال مرزا قادیانی کا شریعت دیکھا تو کفر کافتویٰ دینے کے لئے مجبور ہوئے اور یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلاآیا۔ مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے اس حدیث کے حوالہ سے اپنے مکفرین علماء کو کافر قرار دے دیا ہو۔ چہ جائیکہ کل امت محمدیہ کو۔ اگر باورنہ ہو تو ابھی ابھی کاتازہ معاملہ سرسید مرحوم کا تمہارے سامنے ہے۔ کیا سر سید کی نظر سے یہ حدیث چھپی ہوئی تھی؟ ہرگز نہیں۔مگرانہوں نے علماء دین کو ظاہری حال پر کفر کا فتویٰ دینے میں حق بجانب سمجھا اورآنحضرتؐ کے جانشینوں اور ان کی پیاری امت کو کافر کہنے سے ان کی روح کانپی۔ کیونکہ آنحضرتؐ سے ان کو محبت تھی اورباطن مسلمان تھا۔ ماسوا اس کے اس حدیث کاعذر پیش کرنا فضول ہے جبکہ مرزا قادیانی نے اپنے نہ ماننے والے کوصاف الفاظ میں کافر کہہ دیا۔ میرے بابو صاحب کو دیگر مرزائیوں کی طرح مرزا قادیانی کے لٹریچر پر عبور نہیں۔
بابو صاحب… (شرمندگی کے غصہ میں)اچھا دکھا۔ اس نے ایسا کہاں لکھا ہے؟
بیوی… یہ پڑھئے(حقیقت الوحی ص۱۷۹،خزائن ج۲۲ص۱۸۵)’’کفردو قسم پر ہے۔ اول ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اورآنحضرتؐ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ۱؎ ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘ اب بابو صاحب کو کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔
قاضی صاحب… بابو صاحب آج کی بحث یہیں تک رہنے دیجئے۔ مجھے ایک کام بھی ہے۔ ایک دوست کوہاٹ سے آرہا ہے۔ اسے لانے کے لئے اسٹیشن تک جاؤں گا۔ ہاں آج تک کی بحث پر اگر میرافیصلہ چاہتے ہو تو میں عرض کئے دیتاہوں۔
بابوصاحب… نہیں قاضی صاحب!آج کی ان کی تقریر نے تو خود ہی میری آنکھیں کھول دیں۔ ہمیں آنحضرتؐ کی امت کو اور اس کے بزرگان دین کو کافر کہنے میں اس حدیث کا بڑا
۱؎ مرزا جی پر جب علمائے اسلام نے کفر کافتویٰ دیا تو (ازالہ حصہ دوم ص۵۹۷، خزائن ج۳ ص۴۲۲)پر لکھا اورکیا خوب لکھا مسلمانو!آؤ خدا سے شرماؤ اور یہ نمونہ اپنی مولویت اورتفقہ کا مت دکھاؤ۔ مسلمان توآگے ہی تھوڑے ہیں۔تم ان تھوڑوں کو اور نہ گھٹاؤ۔‘‘