امت میں تفرقہ ڈالنے آئے تھے۔ یہاں تک بیان کرکے بیوی صاحبہ اپنے جوش کو ضبط نہ کر سکیں اوردوپٹے کا آنچل منہ میں رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روپڑیں اور اس گریہ میں یوں گویا ہوئیں قاضی صاحب! میں اور میری بہنیں جو مرزائیوں کے عقد نکاح میں ہیں اور مرزائی مذہب اختیار نہیں کرتیں۔ ان پر ایسے ظلم کئے جارہے ہیں۔ جو شریعت میں ’’لااکراہ فی الدین‘‘کوتو چھوڑو زانیہ عورتوں کے واسطے بھی روانہیں۔
بابوصاحب… مرزا قادیانی پر سراسر یہ اتہام ہے کہ انہوں نے اپنے نہ ماننے والے مسلمانوں کو کافر کہہ کر اپنے سے علیحدہ کردیا ہے۔ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ چونکہ مجھے مسلمان کافر کہتے ہیں۔ اس لئے وہ بموجب اس حدیث کے کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی کافر کہے اور وہ مسلمان حقیقت میں کافر نہ ہو تو فتویٰ کفر کا کافر کہنے واے پرعائد ہوتا ہے۔ خود کافر ہوگئے۔ کیونکہ میں مسلمان ہوں۔
بیوی… بے ادبی معاف! اس حدیث سے بھی مرزا قادیانی نے اپنے مریدوں کو فریب دیا ہے۔ حدیث کے یہ معنے نہیں کہ اگر دلیل شرعی سے علمائے دین کسی پرکفر کا فتویٰ لگادیں اور وہ شخص فی الحقیقت کافر نہ ہو تو علمائے دین بمعہ کل امت محمدیہ کافر ہوجائیںگے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو عداوت اور دشمنی سے بلاحجت شرعی کافر کہے تو یہ لفظ کافر کا تکفیر کرنے والے کی طرف عود کرے گا۔
مرزا قادیانی نے جب اپنے معتقدین کے اعتقاد کے بھروسہ پر اپنے جامہ سے نکل کر ڈینگیں مارنی شروع کیں کہ عیسیٰ کجاست تابنہدہ پابہ منبرم (ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰) اورجادہ شریعت سے باہر نکل گئے۔ تو علمائے دین امت محمدیہ کو کفر اورضلالت سے بچانے کے لئے مجبور ہوئے کہ اس کی نسبت وہ فتوے دیں جس کا اس نے اپنے آپ کو ازروئے شریعت مستحق ثابت کیا۔ اگرچہ یہ شخص مجدد اورنبی بن کر لوگوں کو بیعت کے لئے نہ بلاتا۔ بلکہ کوئی مجذوب فقیر ہوتا تو اس فتوے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن ایسی حالت میں جبکہ وہ کفر بک رہاہے اورمسلمانوں سے بیعت لے رہاہے۔ علمائے دین کا فرض اتم تھا کہ وہ مسلمانوں کو آگاہ کر دیتے کہ یہ شخص مسلمان نہیں۔ اس شخص کی بیعت کرکے اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن نہ بناؤ اور اگر ایسا نہ کرتے تو پھر وہ کس مرض کی دوا تھے؟
علمائے دین کو مرزا قادیانی سے کچھ عداوت نہ تھی۔ کیونکہ اگر انہوں نے ٹکڑہ چھیناتھا تو سجادہ نشینوں اور پیروں کا نہ کہ علماء دین کا۔ بلکہ ان کفریات کے بکنے سے پہلے علماء دین ان کے ثنا