حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کی نافرمان قوم کے ہاتھوں سے مامون ومصؤن رکھنے کاوعدہ فرمایا اوراپنی طرف بلا لینے کا قصد ظاہرفرمایا۔
’’یعیسی انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا‘‘ {اے عیسیٰ(تم گھبراؤ نہیں)میں تم کو کامل طور پر لے لوں گا اور تم کو اپنی طرف اٹھالوںگا اور کافروں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک کروںگا۔}
حق تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دے کر جو وعدہ کیا تھا۔انجام کار اس کو پورافرمایا اور یہودیوں کے خیالات کی تغلیط کی اور جو منصوبہ انہوں نے باندھا تھا وہ اس میں ناکام رہے جیسا کہ اس پر قرآن شاہد اورناطق ہے اورحق تعالیٰ کا یہ ارشاد: ’’وماقتلوہ یقینابل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ {یہود نے ان کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا۔}ایفاء وعدہ کا واضح بیان ہے۔
وَحَارَبَ قَوْمُٗ رَبَّھُمْ وَنَبِیَّہٗ
فَقُوْمُوْا لِنَصْرِاللّٰہِ اِذْھُوَدَانٖ
’’ایک قوم نے اپنے خدااورنبی سے لڑائی باندھی۔ پس تم اﷲ کی مدد پر کھڑے ہو جاؤ جو تمہارے قریب ہے۔‘‘
قوم سے مراد ملا حدہ اور شیاطین کی ایک مخصوص جماعت قادیانی گروہ ہے۔ جس نے قرآن و حدیث کی تعلیم کے خلاف کفر والحاد کو پھیلاکر مخلوق خدا اورامت مرحومہ کو مرتد و ملحد بنانے کا خیال جمارکھاہے اور’’ان الذین یلحدون فی ایاتنا‘‘کے مصداق خود تو تھے ہی مسلمانوں کو بھی بناناچاہتے ہیں۔
وَقَدْ عِیْلَ صَبْرِیْ فِیْ اِنْتِھَاکِ حُدُوْدِہٖ
فَہَلْ ثَمَّ دَاعٍ اَوْمُجِیْبُ اَذَانِیْ
’’خد اکی حدود توڑ ی جانے کی وجہ سے میراصبر مغلوب ہوگیا۔ پس ہے کوئی اس جگہ بلانے والا یا میری آواز کا جواب دینے والا۔‘‘
وَاِذْ عَزَّ خَطْبُٗ جِئْتُ مُسْتَنْصِرٍابِکُمْ
فَہَلْ ثَمَّ غَوْثُٗ یَالَقَوْمِ یُدَانِیْ
’’اور جب مصیبت حد سے بڑھ گئی تو میں تم سے مدد چاہنے آیا پس اے قوم ہے کوئی فریادرس جو میرے نزدیک ہو۔‘‘
لَعَمْرِیْ لَقَدْ نَبَّھْتُ مَنْ کَانَ نَائِمًا
وَاَسْمَعْتُ مَنْ کَانَتْ لَہٗ اُذُنَانٖ
’’قسم ہے مجھے کہ میں نے سوتے کوجگایا اورجس کے کان تھے اس کو سنایا۔‘‘
وَنَادَیْتُ قَوْمًا فِیْ فَرِیْضَۃِ رَبِّھِمْ
فَہَلْ مِنْ نَّصِیْرٍ لِیْ مِنْ اَھْلِ زَمَانٖ