ہے۔ تو اس کے بعد مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ آپﷺ امی ہوں۔پڑھے لکھے نہ ہوں بچند وجوہ:
۱… عرب چونکہ امی تھے اورامیوں کی طرف نبی بھی امی ہونا زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ اس صورت میں افادہ و استفادہ میں آسانی ہوگی۔ اس لئے کہ جس قدر مرسل و مرسل الیہم میں اتحاد زیادہ ہوتا ہے۔ اسی قدر افادہ و استفادہ میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں نبی کا طرز کلام ان کے محاورات و عادات کے بالکل موافق ہوتاہے۔ ان کو سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی اور آپس میں انس بھی زیادہ ہوتاہے اوراگر آپﷺ پڑھے لکھے ہوتے توان لوگوں کو آپﷺ سے انس بھی کم ہوتا اورآپﷺ کا کلام بھی ان کے مزاج کے مطابق نہ ہوتا۔ اس وجہ سے ان کو افادہ و استفادہ میں دقت پیش آتی۔ اس حکمت کی طرف اشارہ اس آیت میں:’’ھوالذی بعث فی الامییّن رسولامنھم(جمعہ)‘‘{اﷲ وہ ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا۔}
۲… مصلحت وقت کا تقاضا یہ تھا کہ آپﷺ کو معجزہ کتاب کی صورت میں دیا جائے۔ جس کی تشریح معجزات کے بیان میں گزرچکی ہے۔ پس اگر آپ لکھے پڑھے ہوتے توبظاہر اس شبہ کی گنجائش ہوتی کہ آپﷺ چونکہ لکھے پڑھے ہیں لہٰذا کتابوں کو دیکھ بھال کر اپنی طرف سے جمع کر لیتے ہیں۔ گو تحدی کے بعد جب مقابلہ سے عاجز ہو جاتے تو یہ شبہ بھی زائل ہوجاتا لیکن قبل ازتحدی اس کی گنجائش ہوتی۔ لیکن آپ ﷺ کے امی ہونے کی صورت میں اس شبہ کی ابتداء میں ہی جڑ کٹ جاتی ہے۔ جیسا کہ اس آیت:’’وما کنت تتلوامن قبلہ‘‘میں اس کی تقریر گزر چکی ہے۔
۳… اگر آپ ﷺ لکھے پڑھے ہوتے تو آپﷺ کو کتاب بھی لکھی لکھائی یک دم دے دی جاتی۔ جیسا کہ آپﷺ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو دی گئی تھیں۔ لیکن قوم قریش کی درشتی و سخت مزاجی اس قدر حد سے بڑھی ہوئی تھی کہ آپﷺ سے کتاب کو چھین کر پارہ پارہ کر دیتے۔ آپؐ کے ہاتھ میں ایک ورق بھی نہ رہنے دیتے۔ اسی مصلحت کی وجہ سے جب تک فرعون غرق نہیں ہوا، موسیٰ علیہ السلام کو کتاب نہیں دی گئی۔ غرض قوم قریش کی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے مصلحت کا تقاضا یہ ہواکہ رسول اﷲﷺ کو لکھا پڑھا نہ بنایاجائے تاکہ لکھی ہوئی کتاب دینے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ امی رکھ کر تھوڑاتھوڑا کرکے کتاب یاد کرادی جائے تاکہ آپﷺ کے قلب میں محفوظ رہے۔ کسی شخص کا اس پر قابو ہی نہ ہونے پائے۔ اسی کے متعلق ارشاد ہے سورئہ شعراء کی اس آیت