سے ان کو سرفراز فرمائے۔ اسی وجہ سے حضورﷺ کی بعثت کے لئے قطعہ عرب کو منتخب کیاگیا۔ اس وجہ سے قرآن شریف میں متعدد جگہ بیان کیاگیا ہے۔ سورئہ یٰسین میں ہے:’’تنزیل العزیز الرحیم لتنذر قوماماانذرآباء ھم فھم غٰفلون‘‘{یہ قرآن شریف خدائے زبردست و مہربان کی طرف سے نازل کیاگیا ہے تاکہ آپﷺ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے تھے۔ سو اسی وجہ سے یہ بے خبر ہیں۔}
اورسورئہ قصص میں ہے:’’ولکن رحمۃ من ربک لتنذرقوما مااتٰھم من نذیر من قبلک لعلھم یتذکرون‘‘{لیکن آپﷺ اپنے رب کی رحمت سے نبی بنائے گئے تاکہ آپﷺ ایسے لوگوں کوڈرائیں جن کے پاس آپﷺ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ کیا تعجب ہے کہ وہ نصیحت قبول کریں۔}دونوں آیات میں قوم سے مراد عرب ہیں اور دونوں آیات کاحاصل یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ زمانہ دراز سے نعمت نبوت سے محروم تھے لہٰذا رحمت الٰہیہ کو جوش آیا کہ ان کی محرومی کو دور کیاجائے۔
اوراس حکمت کا حاصل دوسری عبارت میں یہ ہے کہ وہ امراض روحانیہ جن کا علاج کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام بھیجے جاتے ہیں۔ وہ امراض قطعہ عرب میں انتہاء کو پہنچ گئے تھے۔ حتیٰ کہ بیت اﷲ جیسی پاک جگہ بیت الاصنام بنی ہوئی تھی۔ تین سو ساٹھ بت بیت اﷲ کے اردگرد رکھے ہوئے تھے اور ایسا ہی باقی خرابیاں بھی حد سے گزر گئی تھیں اوراس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لوگ زمانہ دراز سے نعمت نبوت سے محروم تھے۔کوئی مصلح ان کے پاس نہیں آیاتھا۔
الحاصل یہ لوگ روحانی ڈاکٹر کے زیادہ محتاج تھے بنسبت اوروں کے لہٰذا ان کی روحانی بیماریوں نے بزبان حال دربار خداوندی میں دست دعادراز کرکے روحانی ڈاکٹر کی درخواست کی۔ رحمت خداوندی نے فوراً بتقاضائے :’’اجیب دعوۃ الداع اذادعان‘‘منظوری فرما کر نبی کریمﷺ کو مبعوث فرمایا اوران بیماروں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا زبردست مصلح بھیجا جو تمام مصلحین کا سرتاج تھا۔
۳… حضورﷺ کی بعثت کے لئے اولاً ایک قوم کا منتخب کرنا توضروری تھا۔جس کی تشریح اوپر گزر چکی ہے۔ لیکن مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ قوم منتخب کی جائے جو مقصد بعثت کے پورا کرنے میں زیادہ انفع ہو اوروہ مقصد تمام دنیا کی قوموں کی اصلاح ہے لہٰذا پہلے ایسی قوم منتخب ہونی چاہئے جو دنیا بھر کی قوموں سے زیادہ بہادر و قوی ہو۔ اگرچہ اس کی اصلاح میں رسول اﷲﷺ کو بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ کیونکہ ایسی بہادر قوم کی اصلاح ہو جانے کے بعد وہ تما م دنیا کی قوموں