نہایت ہی فطرت انسانی کے موافق ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ جو چیزیں اس مقصد کی تکمیل میں مانع ہوتی ہیں۔ ان کی روک تھام بھی کر دی جائے اوروہ دو چیزیں ہیں ۔ایک لواطت یعنی لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنا یا عورت سے یہی معاملہ کرنا۔ دوسری زنا۔ لواطت میں تو نطفہ کا ضائع ہونا بالکل واضح ہے اور زنا میں گو نطفہ جاتا تواسی محل میں ہے جہاں بچہ پیدا ہوتاہے۔ لیکن ہر شخص کو معلوم ہے کہ زانی وزانیہ دونوں ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ بچہ پیدا نہ ہونے پائے۔ اس قسم کی ادویہ استعمال کی جاتی ہیں کہ نطفہ ٹھہرنے ہی نہ پائے۔ یا ٹھہر جانے کے بعد گر جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رنڈیوں کے ہاں اولاد بہت ہی کم پیدا ہوتی ہے اور اگر بالفرض شاز ونادر ہو بھی جائے تو نہایت ہی ردی ہوتی ہے۔ بوجہ ولدارلزناہونے کے لوگوں کی نظروں میں حقیر وذلیل ہوتی ہے۔
اور علاوہ اس کے زناکاری سے بے حیائی بھی پیدا ہوتی ہے۔ حیا جاتی رہتی ہے۔ جو ایمان کا ایک شعبہ ہے اور بے حیائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کا برا ہونا ہر مذہب و ملت میں مسلم ہے۔ الحاصل زنا ولواطت مقصد نکاح کی تکمیل میں نقصان دہ اور بے حیائی کی بنیاد ہے لہٰذا شریعت اسلامیہ نے ان دونوں کو قطعاً حرام قرار دیا ہے اورقرآن شریف میں ان دونوں کی مخالفت صاف طور پر موجود ہے۔ خصوصاً زنا کے متعلق تو ایک مفصل قانون ہے اور قرآن شریف میں دوجگہ اولاد کے قتل کرنے کی ممانعت کے ساتھ متصل زناکی ممانعت کا ذکر کیاگیا ہے اوراس کے بعد پھر قتل نفس کی حرمت بیان کی گئی ہے۔
غرض قتل ممنوع کی دوصورتوں کے درمیان زنا کی ممانعت کو ذکر کیاگیا ہے۔ جس سے اشارۃً یہ بتانا ہے کہ زنا بھی قریب قریب قتل اولاد ہی کے برابر ہے۔ کیونکہ قتل میں تو پیداہونے کے بعد اولاد کو ضائع کیا جاتاہے اورزنا میں پیدا ہونے ہی نہیں پاتی۔ جس کی تشریح اوپر گزر چکی ہے۔ بہر صورت ضائع ہونا دونوں صورتوں میں مشترک ہے۔
الحاصل زنا ولواطت چونکہ مقصد نکاح کو نقصان دہ ہیں لہٰذا ان دونوں کو شرعاً حرام قرار دیا گیا ہے۔
۲… وصف حیاء چونکہ ایک مرغوب خلق ہے۔ جس کا مرغوب ہونا ہر مذہب و ملت میں مسلم ہے۔ بے حیائی کو کوئی بھی اچھا نہیں کہتا۔ لیکن نکاح کی بعض صورتیں ایسی تھیں کہ ان میں حیا جاتی رہتی ہے۔ بے حیائی پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ماں بہن وغیرہ کے ساتھ نکاح کرنا لہٰذا شرعاً ان صورتوں