کوحرام قرار دیاگیا۔ جن کی حرمت کی تفصیل آیت:’’حرمت علیکم الخ‘‘میں کی گئی ہے۔
۳… نکاح کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں کہ جن سے صلہ رحمی کو نقصان پہنچتا تھا۔ جو نہایت ہی قابل حفاظت چیز ہے۔مثلاً دو بہنوں کا یا خالہ بھانجی کا یا پھوپھی بھتیجی کا ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا کیونکہ بوجہ سوکن ہونے کے صلہ رحمی قائم نہیں رہے گی لہٰذاشریعت میں یہ صورتیں بھی حرام قرار دے دی گئیں۔ جن کی حرمت کی تصریح آیت:’’وان تجمعوا بین الاختین‘‘میں کر دی گئی ہے۔
۴… عورت و مرد کا معاملہ نکاح میں براہ راست گفتگو کرنا چونکہ عورت کے وارثوں کے لئے باعث عار تھا اور اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ عورت چونکہ فطرۃً ناقص العقل ہے۔ اس وجہ سے اپنی مصلحت کو بھی پورے طور پر نہ سمجھ سکے لہٰذا ان دونوں باتوں کے تدارک کے لئے شریعت نے ولایت کو تجویز کیا ہے تاکہ یہ معاملہ عورت کے اولیاء کے ساتھ طے کیاجائے۔
۵… خداوندتعالیٰ نے انسانوں کو چونکہ مختلف مزاج پیدا کیا ہے لہٰذا نکاح ہونے کے بعد بسا اوقات زوجین یعنی میاں بیوی کے درمیان موافقت نہیں پیدا ہوتی اور دونوں ایک دوسرے سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ مل کر زندگانی بسر نہیں کر سکتے۔
اگر نکاح کے بعد اس قسم کی صورتوں میں تفریق کی کوئی صورت تجویز نہ کی جائے تو دونوں کی زندگی برباد ہو جائے گی اوراس قسم کی صورتیں کثرت سے پیش آتی ہیں۔اس قسم کی صورتوں کو مدنظررکھ کر شریعت اسلامیہ میں طلاق تجویز کی گئی ہے۔ جس مذہب میں اس قسم کی صورتوںکو بالکل نظرانداز کردیاگیا ہے اور طلاق کو تجویز نہیں کیاگیا۔ وہ مذہب انسانی اصلاح کا کیا دعویٰ کرسکتا ہے؟ یہ اسلام ہی کا کمال ہے کہ کوئی پہلو بھی اصلاح کا باقی نہیں چھوڑا۔
مخالفین اسلام مسئلہ طلاق پر مذاق اڑایاکرتے تھے۔ لیکن تجربہ کے بعد مجبوراً ان کو طلاق کے متعلق قانون بناناپڑا اوراپنے مذہب کو ناقص تسلیم کرناپڑا۔ بیوہ کے نکاح کو جو لوگ ناجائز سمجھتے تھے۔ وہ آج اسلامی قانون کے آگے سرتسلیم خم کررہے ہیں۔مگر قربان جائیے مذہب اسلام پر کہ اس نے کوئی پہلو اصلاح کا باقی ہی نہیں چھوڑا۔ طلاق کا دینا چونکہ مردکے اختیار میں ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ وہ طلاق نہ دے۔ مگر عورت اس کے ساتھ رہنا برداشت نہیں کرسکتی تو اس کے لئے شریعت میں خلع تجویز کیاگیا ہے کہ عورت کچھ مرد کو دے کر اپنی رہائی کی صورت کرلے اور اگر نکاح زمانہ نابالغی میں ہواتھا۔ تو اس صورت میں عورت کے لئے خیار بلوغ بھی رکھاگیا ہے۔بالغ