شخص کو دقت نہ پیش آئے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضورﷺ نے قسم کھائی کہ ایک مہینہ تمام بیبیوں سے علیحدہ رہیںگے۔ ایک بالاخانہ میں تشریف لے گئے۔ انتیس دن گزرنے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ آپﷺ نے تو مہینہ بھر کی قسم کھائی تھی(ابھی توانتیس دن ہوئے ہیں)تو حضورﷺ نے یہ فرمایا کہ اے عائشہؓ! ہم تو ایک بے لکھی پڑھی جماعت ہیں۔ آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پھیلاکر تین دفعہ اشارہ کیا اوریہ ارشاد فرمایا کہ مہینہ کبھی تیس دن کا ہوتا ہے اور دوبارہ پھر دونوں ہاتھوں سے تین دفعہ اشارہ کیا۔ مگر تیسری دفعہ ایک انگلی نیچے کرلی اور فرمایا کہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اورآپﷺ کا مطلب یہ تھا کہ ہماراحساب توقمری مہینوں سے ہوتا ہے اور قمری مہینہ کبھی تیس کا ہوتاہے اور کبھی انتیس کا۔
الحاصل انصاف سے دیکھنے والا تو قطعاًسمجھ سکتا ہے کہ مصلحت عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے قمری حساب سے بہتردوسری کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ حساب کی ضرورت تو اس قدر عام ہے کہ عورتوں کو عدت گزارنے میں بھی ضرورت پڑتی ہے۔ تو اگر ان کو شمسی مہینوں کا حساب لگانا پڑے تو کس قدر دقت میں واقع ہوںگی۔ حساب دانوں کی تلاش میں ماری ماری پھریں گی۔ لیکن قمری حساب سے گھر بیٹھے بٹھائے نہایت آسانی کے ساتھ عدت گزارلیںگی۔ اول تو خود ہی چاند دیکھ لیا کریںگی ورنہ بچہ بچہ بتا دے گا کہ آج چاند ہوگیا۔
غرض جس مذہب نے قمری حساب اختیار نہیں کیا ۔ اس کو انصاف کی رو سے دعوت عامہ کا حق ہرگز نہیں ہو سکتا اوراس مصلحت عامہ کے خالق نے چاند میں گھٹنا اوربڑھنا ایسے واضح طریقہ پررکھا ہے کہ ہر شخص اس کو آسانی کے ساتھ معلوم کرسکے۔ اگر سورج کی طرح چاند بھی ہمیشہ یکساں رہتا تو پھر قمری حساب میں بھی شمسی کی طرح دقت ہوتی۔ اسی حکمت کے متعلق ارشاد ہے اس آیت میں:’’یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج (سورہ بقر)‘‘
{آپ سے چاندوں کے (ہر مہینہ بڑھنے کی)حالت (اوراس میں جو فائدہ ہے اس فائدہ) کی کی تحقیقات کرتے ہیں۔آپ فرمادیجئے کہ (فائدہ اس کا یہ ہے کہ)وہ چاند(اپنے اس گھٹنے بڑھنے کے اعتبار سے)آلہ شناخت اوقات ہیں لوگوں کے لئے (یعنی ان کے معاملات وغیرہ کے لئے )