۳… حضورﷺ کی شریعت کے قوانین کی وضع میں غور کرنے سے یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ یہ شریعت عالمگیر شریعت ہے۔ کیونکہ ہر ہر قانون میں تمام دنیا کی قوموں کی مصلحت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اگر کسی دوسرے مذہب والے یہ دعویٰ کریں کہ ہمارا مذہب تمام دنیا کے لئے ہے تو اولاً یہ دعویٰ مشاہدہ کے خلاف ہے اور ثانیاً جب اس مذہب کے قوانین پر نظرڈالی جائے تو یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگا۔ کیونکہ اس مذہب کے قوانین میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوگی کہ تمام قوموں کی مصلحت کو پورا کر سکیں۔
قوانین میں غور کرنے کے بعد کوئی مذہب سوا اسلام کے ایسا نظرنہیں آئے گا کہ جس کے قوانین میں تمام دنیا کی قوموں کی مصلحت کا لحاظ رکھا گیا ہو لہٰذا تمام دنیا کو دعوت دینے کا حق مذہب اسلام ہی کو حاصل ہے۔
گو اس رسالہ کاموضوع قوانین کی تشریح نہیں ہے۔ بلکہ صرف مسئلہ رسالت کو واضح کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔ لیکن نمونہ کے طور پر چند قوانین کو پیش کرتاہوں۔
(۱)الرسالۃ… اول تو اسی مسئلہ میں غور فرمائیے جو موضوع ہے اس رسالہ کا (یعنی مسئلہ رسالت) کہ اس میں کس خوبی کے ساتھ مصلحت عامہ کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ عاقل آدمی ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد جو مسئلہ رسالت کے متعلق اس رسالہ میں ذکر کی گئی ہیں۔ نہایت آسانی کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اصلاح عامہ کے لئے اس سے بہتر اور کوئی صورت رسالت کی نہیں ہو سکتی۔
چونکہ اس مسئلہ کے تمام پہلو اس رسالہ میں مفصل موجود ہیںلہٰذا اس کے متعلق زیادہ تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔
(۲) انضباط اوقات… ہر شخص جانتا ہے کہ لین دین و عبادت و احکام میں انضباط اوقات کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثل حج وزکوٰۃ و روزہ رمضان وعیدین وعدت و طلاق وغیرہ وغیرہ اور انضباط اوقات کی دو صورتیں ہیں۔ شمسی حساب و قمری حساب۔ لیکن شمسی حساب ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ بلکہ اس کے سمجھنے کے لئے ایک اچھے حساب دان کی ضرورت ہے اور انضباط اوقات کی ضرورت فقط حساب دانوں ہی کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ ہر کس وناکس کو پیش آتی ہے اور قمری حساب بالکل آسان ہے۔ خواندہ وناخواندہ اس کو برابر سمجھ سکتاہے لہٰذا مذہب اسلام نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ کرتے ہوئے قمری حساب کو اختیار کیا ہے اور احکام کا دارومداد اسی پررکھا ہے تاکہ کسی