لئے فرمایا:’’ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون‘‘
او ر ایسا ہی انسان کو ماں کے پیٹ میں رکھ کر پیدا کرنے اورپھر آہستہ آہستہ جوان بنانے اور پھر بوڑھابنانے میں جو قدرت کے کرشمے نظرآتے ہیں۔ وہ یوں ہی یک دم جوان پیدا کرنے میں نظر نہیں آتے۔ کیونکہ اوّل تو ماں کے پیٹ ہی میں بہت سے عجائبات قدرت دکھاتے ہیں۔ جن کو دیکھتے ہی بے ساختہ :’’فتبٰرک اﷲ احسن الخالقین‘‘کا نعرہ زبان پر آتا ہے۔ جس کے متعلق ارشاد ہے:’’ثم جعلنہ نطفۃ فی قرارمکین۔ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظٰما فکسونا العظٰم لحما ثم انشاء نہ خلقا اخرفتبٰرک اﷲ احسن الخالقین (سورہ مومنون)‘‘
{پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو ایک محفوظ مقام (یعنی رحم) میں رہا۔ پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا۔ پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنادیاپھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنادیا۔پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا(جس سے ہڈیاں ڈھک گئیں) پھر ہم نے اس کو ایک دوسری مخلوق بنادیا(یعنی اس میںروح ڈال دی)سو کیسی بڑی شان ہے اﷲ کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے۔}کیونکہ کوئی دوسرا صانع روح نہیں ڈال سکتا۔ غرض اس قدر انقلابات کے بعد انسان ماں کے پیٹ سے باہر آتاہے اور پھر یہ بھی فرمادیاگیا کہ یہ تمام کاریگری تین اندھیروں میں ہوتی ہے:’’یخلقکم فی بطون امھتکم خلقا من بعد خلق فی ظلمت ثلث (سورہ زمر)‘‘{وہ تم کو ماؤں کے پیٹ میں ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت پر بناتاہے۔}
تین تاریکیوں میں ایک تاریکی شکم کی، دوسری رحم کی ،تیسری اس جھلی کی جس میں بچہ لپٹاہوتاہے اورپیدائش کے وقت اپنی قدرت کا نظارہ دکھاتے ہیں کہ کس خوبی سے بچہ کو نکالتے ہیں کہ باوجود راستہ تنگ ہونے کے بچہ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی۔ اسی کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے:’’خلقہ فقدرہ ثم السبیل یسرہ (سورہ عبس)‘‘یعنی اس کی صورت بنائی پھر اس (کے اعضائ) کو انداز سے بنایا پھر اس کو(نکلنے کا)راستہ آسان کردیا(ورنہ بچے کی کیا حقیقت تھی کہ وہ ایسے تنگ موقع سے بہ سلامت باہرآسکتا۔
پھر دوسری قدرت یہ دکھاتے ہیں کہ بچے کے نکلتے ہی ماں کے پیٹ سے دودھ کی دو نہریں جاری کردیتے ہیں اورپھر تیسرا کمال یہ دکھاتے ہیں کہ بچہ کو دودھ پینے کا طریقہ تعلیم فرماتے ہیں۔ نکلتے ہی بچہ اس خوبی سے دودھ پینا شروع کر تاہے کہ انسان حیران رہ جاتاہے۔ ہماری