وغیرہ تمہارے ذمہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے بڑی مشکل سے ان کو دفن کیا اورآگے چلے تو باری تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ!وہ سوال جو تم نے کیاتھا۔ پھر اس کے متعلق کوئی بات چیت نہیں کی تو موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ مولیٰ میری سمجھ میں آگیا ہے۔مگرمہربانی فرما کر اورکوئی مردہ نہ میرے سپرد کرنا۔ غرض موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ اگر موجودہ صورت تعلقات کی نہ ہوتی تو مردے ہی کوئی نہ اٹھاتا۔
اورعلاوہ اس کے خداوند تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات اختلاف فطرت کی صورت میں زیادہ ظاہر ہوتے ۔بہ نسبت مساوات فطرت کے ۔کیونکہ مساوات فطرت کی صورت میں یا تو سب خوبصورت ہوتے یاسب بدصورت یا سب اندھے ہوتے یا سب آنکھوں والے غرض سب ایک ہی حالت پرہوتے تو یہی سمجھتے کہ یوں ہی ہوا کرتے ہیں۔ بنانے والے کی طرف توجہ ہی نہ ہوتی۔ لیکن جب کوئی خوبصورت ہے اورکوئی بدصورت توضرور خیال کیا آئے گا کہ بنانے والا بڑازبر دست ہے۔ جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ علی ہذاالقیاس باقی حالتیں۔
ایسا ہی اگر تمام پھل ایک ہی حالت پر ہوتے مثلاً خربوزے سارے میٹھے ہی ہوتے یا سارے پھیکے۔ اسی طرح دیگر پھل تو لوگ یہی سمجھتے کہ یوں ہی ہوا کرتے ہیں۔ مگر جب باوجودیکہ کھیت ایک ہے اور ایک ہی پانی سے سیراب کیاگیا ہے۔ لیکن پھر پھلوں کا ذائقہ ایک نہیں ہے توضرور خیال آئے گاکہ کوئی بڑی زبردست طاقت ہے جو اپنے تصرف سے جسے چاہے میٹھا کر دے اور جسے چاہے پھیکا بنادے تو اس قدرت کے نظارہ کو دیکھ کر انسان خالق کی طرف متوجہ ہوگا۔ اسی حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ اس آیت میں:’’وفی الارض قطع متجورات وجنّٰت من اعناب وزرع ونخیل صنوان وغیر صنوان یسقٰی بماء واحد ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون (سورہ رعد)‘‘
{اور زمین میں پاس پاس مختلف قطعے ہیں اورانگوروں کے باغ ہیں اورکھیتیاں ہیں اور کھجوریں ہیں۔ جن میں بعضے تو ایسے ہیں کہ ایک تنہ سے اوپر جاکر دو تنے ہو جاتے ہیں اور بعضے دو تنے نہیںہوتے۔ سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتاہے اور ہم ایک کو دوسرے پر پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں۔ ان امور میں سمجھداروں کے واسطے دلائل ہیں۔}
یعنی سمجھدا رآدمی جب دیکھتاہے کہ ایک کھیت کا پھل رنگ میں ذائقہ میں، بو میں، شکل میں غرض سب باتوں میں مختلف ہے حالانکہ سب کو پانی ایک دیاگیا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتاہے کہ یہ اختلاف بغیر قادر مختار کے دوسرے سے ممکن نہیں ہے۔ مگراس نتیجہ پر سمجھدار ہی پہنچ سکتے ہیں۔ اس ل