اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں کو فن طب میں کمال حاصل تھا اور اس فن میں وہ لاثانی تھے۔ چنانچہ بڑے بڑے ماہرین فن طب اسی زمانہ میں گزرے ہیں۔ چنانچہ قاعدہ مذکورہ کا مقتضیٰ یہی تھا کہ ان کو معجزہ اسی رنگ میں دیا جاتا اسی بنا پر ان کو مردوں کا زندہ کرنا۔ مادر زاد اندھوں کا اور برص کی بیماری والے کو اچھا کرنا،گارے کے جانور بناکراڑانا دیا گیا۔
کوئی طبیب کتنا ہی ماہر فن ہو۔ مگر وہ اپنے علاج سے نہ تو مردوں کو زندہ کرسکتا ہے اور نہ مادرزاد اندھے کو اچھا کرسکتا ہے اور نہ گارے کے جانوروں میں جان ڈال سکتاہے۔ خواہ وہ جالینوس زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔ مگر عیسیٰ علیہ السلام اپنے طب روحانی یعنی معجزہ سے یہ تمام کام کرتے تھے اورتمام ماہرین فن طب کو عاجز کر دیتے تھے اور رسول اﷲﷺ جس قوم میں مبعوث ہوئے نہ تو وہ فن طب سے واقف تھی۔ نہ فن جادوگری سے آشنا بلکہ اس قوم کا مابہ الافتخار فصاحت و بلاغت تھی۔ میدان فصاحت و بلاغت میں ان سے کوئی سبقت لے ہی نہیں سکتاتھا۔
غرض اس فن میں وہ لوگ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا قاعدہ مذکورہ کے لحاظ سے مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ رسول ﷺ کو معجزہ اسی فن میں دیا جائے۔ اس بناء پر آپﷺ کو قرآن کا معجزہ دیاگیا۔اس کی فصاحت و بلاغت کے آگے تمام فصحاء بلغاء عرب نے سرتسلیم خم کر دیا۔ کسی سے آج تک مقابلہ نہیں ہوسکا اورنہ قیامت تک ہو سکے گا۔
معجزہ چونکہ نبی کا دعویٰ نبوت کے صداقت کی دلیل ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن شریف رسول اﷲﷺ کی نبوت کی کامل دلیل ہے۔ اس لئے خدا وند نے سورئہ یٰسین کے ابتداء میں ہی آپؐ کی نبوت پر قرآن شریف ہی کودلیل بنایاہے:’’والقران الحکیم، انک لمن المرسلین‘‘یعنی قسم ہے قرآن باحکمت کی کہ بے شک آپ منجملہ پیغمبروں کے ہیں۔ یعنی آپ ؐ کے پیغمبر ہونے پر قرآن شریف ہی دلیل ہے۔
کفار کو قرآن شریف کے معجزہ ہونے میں یہ شبہ تھا کہ شاید اس کو رسول اﷲﷺ خود تصنیف کرتے ہوں۔ تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ:’’وماکنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذالا رتاب المبطلون‘‘آپ کے متعلق اس شبہ کی تو بالکل گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ آپ قرآن شریف سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے اور نہ کوئی کتاب ہاتھ سے لکھ سکتے تھے کہ ایسی حالت میں کفار کچھ شبہ نکالتے کہ یہ لکھے پڑھے آدمی ہیں۔کتابیں دیکھ بھال کر کچھ مضامین جمع کرکے سنا دیتے ہیں۔ یعنی اگر آپ لکھے پڑھے ہوتے توالبتہ کسی قدر منشاء اشتباہ تو ہوتا گو وہ بھی بعد ظاہر ہونے اعجاز قرآن کے زائل ہو جاتا۔لیکن جب آپؐ لکھے