محمدﷺ کو چھوڑ دیا۔ اس لئے انہوں نے رات کواٹھنا بند کردیا۔ ام جمیل کی اس بات سے آنحضرتﷺ کو رنج ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے رنج رفع ہو جانے کی غرض سے یہ سورۃ نازل فرمائی اور فرمایا کہ اے نبی اﷲ کے نہ اﷲ نے تم کو چھوڑ دیا ہے۔ نہ وہ تم سے کچھ خفاہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کا رنج رفع کرنے کے ئے یہ بھی فرمایا کہ دنیا تو اسی طرح کے رنج والم پیش آنے کی جگہ ہے۔ مگر چند روز ہ دنیا گزر جانے کے بعد اے نبی اﷲ کے تمہارے لئے عقبیٰ میں بڑے بڑے درجے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کی اسی طرح کی نصیحتوں کے اثر سے آنحضرتﷺ دنیا کی کسی راحت کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے۔چنانچہ امام احمدؒ ترمذی وغیرہ میں عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن بوریا پر سونے سے آنحضرتﷺ کے پہلو پرنشان پڑ گئے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ کو معلوم ہوتاتو میں بوریا پر کوئی چیز بچھونے کے طور پربچھادیتا۔ یہ سن کر آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ دنیا چند روزہ ہے۔ اس لئے مجھ کو دنیاکی راحت درکار نہیں۔میری اوردنیا کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی مسافر تھوڑی دیر کسی سایہ دار درخت میں ٹھہر جاتاہے۔‘‘
حاضرین بیک زبان ہوکر سبحان اﷲ،سبحان اﷲ!سچے نبی کیسے دنیاوی راحتوں سے الگ رہتے تھے۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ آیت:’’ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ‘‘کی شان نزول کی بابت صحیح سند سے تفسیر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم بیہقی طبرانی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں۔ ان کاحاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کے عہد میں پیش آیا کہ دور دور کے تمام شہر فتح ہوگئے اوراسلام کو نہایت ترقی ہوئی اور امت محمدیہ کو ہر طرح کی راحت نظرآئی۔ اس حال کے معلوم ہونے سے آنحضرتﷺ بہت خوش ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کوزیادہ خوش کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ دنیا کی راحت کے علاوہ اے نبی اﷲ کے تمہارے امت کو اﷲ تعالیٰ آخرت میں بھی وہ راحت دینے والا ہے۔ جس سے تم خوش ہو جاؤگے۔ اس معنی کی پوری تائید صحیح مسلم کی حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی حدیث سے ہوتی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ ایک روز قیامت کے دن کا امت محمدیہ کا انجام یاد کر کے رونے لگے۔