بابوصاحب… اجی یہ توآپ صاحبان کی نوازشات ہیں۔ مجھ پر بڑی مہربانی ہوگی کہ اس ناچیز کو آپ یاد رکھیںگے اور کبھی کبھی اپنی خیریت کا کارڈ ڈال دیا کریںگے۔
نووارد… بابوصاحب آپ کا سلوک ہمارے ساتھ ایسا نہیں رہا کہ ہم آپ کو کبھی بھول سکیں۔ ہاں میرے ہاتھ میں چونکہ رعشہ ہے۔ خط لکھنا مجھے بڑادوبھر معلوم ہوتاہے۔ ہاں جب کبھی آپ اسٹیشن چھوڑا کریں تو مجھے بذریعہ کارڈ اطلاع دے دیاکریں کہ آئندہ میرا پتہ یہ ہوگا۔
بیوی… لیجئے مولوی صاحب یہ احسن التفاسیر لیجئے۔
نووارد… لیجئے قاضی صاحب اب میری طرف متوجہ ہو جائیے۔ آپ کا ایمان ہو نہ ہو۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ :
آں راکہ خبر شد خبرش بازنیامد
یعنی خدا کی عبادت کرنے والوں کو جب کچھ مل جاتا ہے۔ تو پھر وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ بلکہ میرے خیال میں سچے جھوٹے بزرگ میں تمیز یہی ہے کہ پہلا خاموش ہے اوردوسرا ہر روز ایک نیاقصہ لوگوں کو سناتا ہے۔ مرزے نے اپنی تمام کتابیں اسی بات سے پر کر دیں۔مجھے خدا نے فرمایا ہے تو ایسا ہے تو وہ ہے۔ تیرا میرے ساتھ فلانا تعلق ہے۔ یہ ہے اور وہ ہے۔ کسی نے اعتراض کیا توفرمایا کہ مجھے الہام ہواہے کہ ’’امابنعمۃ ربک فحدث‘‘(حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۷۰) یعنی خدا کی نعمتوں کا لوگوں سے ذکر کر۔
اس الہام کی تعمیل کرتاہوں۔ کسی نے توقرآن کھول کر نہ دیکھا کہ کیا اس آیت کے یہی معنی ہیں؟ جو یہ ہمیں بتارہا ہے۔ یا کچھ اور۔ پس میں آج اس سورۃ الضحی کی تفسیر آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں تاکہ آپ کومعلوم ہو جاوے کہ مرزے نے لن ترانیاں ہانک ہانک کر اپنا پایہ سب سے بلند کرنے کے لئے کیسی لوگوں کی آنکھوں میںدھول ڈالی اورآیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اس سورۃ کی تفسیر احسن التفاسیر میں یوں لکھتاہے:
’’اگرچہ مفسروں نے اس سورۃ کے شان نزول میں طرح طرح کی باتیں لکھی ہیں۔ سب سے زیادہ صحیح شان نزول وہی ہے۔جس کاذکر صحیحین کی جندب کی روایت میں ہے کہ حضرت ﷺ ہجرت سے پہلے مکہ میں کچھ بیمار ہوگئے تھے۔ اس بیماری کے سبب سے دو تین راتوں تک آپ تہجد کی نماز کو نہیں اٹھے۔ یہ دیکھ کر ام جمیل ابولہب کی بی بی نے کہا کہ محمدﷺ کے رب نے