بیوی… مولوی صاحب آپ تو ہمارے قاضی صاحب کے کھانے کو ہی ہمیشہ ٹوکتے رہتے ہیں۔ قاضی صاحب کھائیے اورخوب کھائیے۔ یہ چاول تو میں نے آپ ہی کی خاطر دم کئے ہیں۔ اگر آپ نے نہ کھائے تو ان کے دام دینے پڑیںگے۔
گاموں… قاضی۱؎ جی خیر میں تہانوں نپ کے تہاڈے پچھے بیٹھا رہاں گا۔
نووارد… اورگاموں مرزا قادیانی کا فصیح وبلیغ مصرعہ بھی پڑھتا جائیوجاگو جاگو آریو ،نیند نہ کرو پیار۔
قاضی صاحب… (منہ میں نوالہ ڈال کر)بابوصاحب میں آپ سے سچ کہتاہوں(نوالہ نگل کراورگاموں کو پانی کااشارہ کرکے)کہ نیند میرے اپنے اختیار میں ہے۔
نووارد… اچھا آپ کھائیں جتنا چاہیں۔ لیکن میری تقریر میں اگرآپ نے ایک آنکھ بھی بند کی تو پھر آپ تماشہ دیکھیں گے۔
قاضی صاحب… نہ مولوی صاحب آنکھیں کھلی رکھنا تو میرے اختیار میں نہیں۔مگر حقیقت میں میں جاگتا ہواکرتاہوں۔
بیوی… ہاں اس کا تو مقبول کی والدہ بھی مجھ سے ذکر کرتی تھیں۔ قہقہہ۔ اور سب نے ہاتھ اٹھا کر :’’الحمد ﷲ الذی اطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین والحمدﷲ رب العلمین‘‘
بیوی… گاموں سب سے پہلے یہ ہڈیوں کا ڈھیر بابوصاحب کے سامنے سے اٹھا کر موتی کو ڈال دے کہ اس کا وقت ضائع نہ ہو اورمولوی صاحب میرے آنے تک تقریر شروع نہ کیجئے گا۔
نووارد… نہیں بیوی جی تم کھانا بافراغت کھاآؤ۔ ابھی تو ہم نے پان کھاناہے۔ حقہ پینا ہے۔ ہاں آتے ہوئے احسن التفاسیر کی ساتویں منزل لیتے آنا۔
نووارد… اچھا بابوصاحب آج تو ہمارا کوچ ہے۔ کوہاٹ کی کوئی خدمت میرے لائق ہوا کرے تو بلاتکلف اطلاع دیا کریں۔
قاضی صاحب… اورمیری طرف سے بھی یہی معروض سمجھیں۔
۱؎ یعنی قاضی جی آپ خوب کھانا کھائیں۔نیند سے نہ ڈریں۔آپ کو پکڑے آپ کے پیچھے بیٹھا رہوںگا۔ گرنے نہ دوں گا۔