بیوی… مگر مرزا تو ایسی پیدائش کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی طرح نادرات سے قرار دیتا ہے۔ قاضی جی پڑھنا۔ (تحفہ گولڑویہ ص۶۸، خزائن ج۱۷ ص۲۰۲)
بابوصاحب… گاموں چاء کا بھی کچھ غم ہے یا نہیں؟
گاموں… جی اہ۔
قاضی صاحب… ’’ہم اپنی کتابوں میں بہت جگہ بیان کر چکے ہیں کہ یہ عاجز حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے رنگ میں بھیجا گیا ہے۔ بہت سے امور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں ایک ندرت تھی۔ اس عاجز کی پیدائش میں بھی ایک ندرت ہے اور وہ یہ کہ میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی اور یہ امر انسانی پیدائش میں نادرات سے ہے…حضرت مسیح کا بغیر باپ کے پیداہونا بھی امور نادرہ میں سے ہے…پس اس قسم کی پیدائش صرف اپنے اندر ایک ندرت رکھتی ہے۔ جیسے توام میں ایک ندرت ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔‘‘ لاحول ولاقوۃ!
مولوی صاحب، آپ اپنامضمون شروع کیجئے۔ آج ہم نے روانگی کی تیاری بھی کرنی ہے۔
بابوصاحب… اے لو چاء آگئی۔ پہلے چاء سے فارغ ہولیجئے۔
نووارد… بابوصاحب آپ کا رقعہ کل گاموں مولوی صاحب کو پہنچاآیاتھا۔ کیوں گاموں؟
بابوصاحب… جی ہاں!پہنچا توآیاتھا۔ مگر کہتاہے کہ اس کے سامنے انہوں نے رقعہ پڑھا نہیں۔ ایک دوآدمی ان کے پاس بیٹھے تھے۔ اس لئے رقعہ لے کر جیب میں ڈال لیا اور یہ چلا آیا۔
نووارد… آدمی کون تھے؟
بابوصاحب… کہتا ہے کوئی مرزائی تھے۔
نووارد… بابوصاحب اگر مرزائیوں کے سامنے وہ آپ کے رقعہ کو پڑھتے؟ تو یقین جانیں آپ کے سوالوں کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
قاضی صاحب… (پیالی ختم کرکے)اگرچہ یہ ان تینوں سوالوں کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
نووارد… قاضی صاحب آپ سچ فرماتے ہیں۔ زبانی مباحثات میں تو یہ الٹی سیدھی کچھ نہ کچھ کہہ جاتے ہیں۔ مگر تحریری جواب دینا کارے وارد اوردوسرے سوالات او ر اعتراضات کی نوعیت سے