آپ بابوصاحب کی طرف سے اس رقعہ کا جواب لکھیں۔ میں بولتا جاتا ہوں اورآپ لکھتے جاویں۔
قاضی صاحب… بہت خوب فرمائیے۔
نووارد… لکھئے:
مکرم بندہ جناب مولوی صاحب
وعلیک۔ مولوی صاحب میں تو سمجھتاتھا کہ آپ اپنے مسیح موعود کے لٹریچر اور الہامات سے واقف ہوں گے۔مگر افسوس میراخیال غلط نکلا۔ میں آپ کی اس تحریر پرحیران ہوں کہ ہماری محفل میں آپ کے مسیح و مہدی کی ہتک اوربے عزتی کی جاتی ہے۔ مولوی صاحب نظر کمزور ہو۔ تو عینک لگا لیجئے اور روشنی کی طرف ہوکر(۱لوصیت ص۱۲،خزائن ج۲ص۳۰۱، ۳۰۲) پر مرزا قادیانی کے عربی الہام(وحی مقدس و متواتر) پڑھئے۔ پھر اس کی تشریح جو مرزاے نے (الوصیت ص۱۲،خزائن ج۲ ص۳۰۱، ۳۰۲)پرکی ہے۔پڑھئے جو اس طرح پر ہے:
’’اس جگہ یاد رہے کہ خدا کا یہ فرماناکہ ہم تیری نسبت ایسے ذکر باقی نہیں چھوڑیں گے جو تیری رسوائی اورہتک عزت کاموجب ہوں۔ اس فقرہ کے دو معنی ہیں:
۱… اوّل یہ کہ ایسے اعتراضات کو جو رسوا کرنے کی نیت سے شائع کئے جاتے ہیں۔ ہم دور کر دیںگے اور ان اعتراضات کا نام ونشان نہ رہے گا۔
۲… دوسرے یہ کہ ایسی شکایت کرنے والوں کو جو اپنی شرارتوں کو نہیں چھوڑتے اوربدذکر سے باز نہیں آتے۔دنیا سے اٹھا لیں گے اورصفحہ ہستی سے معدوم کر دیںگے۔ تب ان کے نابود ہونے کی وجہ سے ان کے بیہودہ اعتراض بھی نابود ہوجاویں گے…بعد اس کے تمہارا واقعہ ہوگا۔‘‘
مولوی صاحب خدا کو حاضر ناظر جان کر فرمائیے۔ کیا اس الہام(وحی ومتواتر) کے بعد اور مرزا کے حادثہ کے بھی بعد مرزے کی ہتک اور بے عزتی کرنا کسی کے اختیار میں رہا؟ اگر اب بھی اس کی ہتک اور بے عزتی ہوسکتی ہے تو وہ وحی مقدس ومتواتر جھوٹی اور مرزا جھوٹے الہام خود گھڑ کر ان کو خدا کی طرف منسوب کرنے والا اور مفتری علی اﷲ۔ لہٰذا اس کوجتنی بے عزتی اور رسوائی بھی ہو کم کیونکہ ایسے شخص کو خدا سب سے بڑاظالم قرار دیتاہے اورمعمولی ظالم پر لعنت بھیجتا ہے اور اگر مرزا سچا، اس کے الہام سچے اور خدا کی طرف سے، تو اس کے حادثہ یعنی اس کی موت کے بعد اس کی ہتک او ر رسوائی کرنا ناممکن۔ کیونکہ ایسے اعتراضات کو خدا نے دور کر دیا اور اعتراض کرنے والوں کو خدا نے صفحہ ہستی سے معدوم کردیا۔