کئے۔ کتنے ہندو مسلمان کئے۔کتنے آرئیے مسلمان کئے۔کتنے سکھ مسلمان کئے۔کتنے یہودی مسلمان کئے۔ کتنے دہریئے مسلمان کئے۔ یہ جو مٹھی بھر مسلمان آپ کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ یہ تو پہلے ہی رسول اﷲ کاکلمہ پڑھتے تھے۔ خدا کی ہستی کے قائل تھے۔ مشرک نہ تھے۔ خدا کو وحدہ لا شریک مانتے تھے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداکا بیٹا نہیں۔ ایک پیغمبرمانتے تھے۔ بت پرست نہ تھے۔منکر خدا نہ تھے۔ تو آپ نے دنیا میں آکر سوا اسکے کہ اسلام کو کمزور کرنے اوراس کے دشمنوں کو خوش کرنے کے اسلام میں تفرقہ ڈال دیا۔ آپ نے کون سا تیر مارا۔ جس کے لئے خدا نے آپ کو چنا اورسارے جہان پر آپ کوفضیلت دی۔ تو اس کو جواب دیا جاوے کہ خدا نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ دنیامیں ایک نذیرآیا۔ پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا۔ یہ بھی جنگلی چوہے کے بل کی طرح نکل بھاگنے کے سوراخوں میں سے ایک بڑابھاری سوراخ ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مگر اس میں بھی ذلت کو اپنی طرف نہیںآنے دیا اورٹانگ اونچی ہی رکھی گئی ۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا کیوں؟ اس کی وجہ کیا؟اس کے چننے اوراس پراتنے اعزاز نچھاور کرنے میں جو اس نے … کی۔ اس شرمندگی کو رفع کرنے کے لئے ۔
گاموںرقعہ کا جواب لے آیا اورقاضی صاحب نے کھول کر پڑھنا شروع کیا۔
مکرم بندہ جناب بابوصاحب
السلام علی من اتبع الہدیٰ میں ہرگز ہرگز ایسی محفل میں نہیں آنا چاہتا جہاں ہمارے مسیح موعود اور مہدی معہود صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک اور بے عزتی ہوتی ہو۔ باقی رہا آپ کے اعتراضوں کا جواب وہ کل صبح آپ کو پہنچ جاوے گا۔ الراقم : از بس ملول بندہ…
نووارد… بابوصاحب خیر ہے۔ کچھ حرج نہیں۔ رات خیر سے گزرے۔ تو کل صبح بھی کچھ دور نہیں۔
بابوصاحب… یہ ہتک اور بے عزتی کاحال اس شیطان نے ان سے بیان کیاہوگا۔ تب ہی اتنی دیر لگاکر آیا ہے۔
قاضی صاحب… کیوں گاموں؟
گاموں… جی یہ اوہ آپے کھوتر کھوتر کے گلاں پچھدے رہے میں بھی سچ سچ آکھ دتا جے ساڈی مولوی ہوراں تے مرجے دا نہاوںکردتا۔
نووارد… بابوصاحب کی میز پر سے قلم دوات اور ایک ثابت چٹھی کاکاغذلے آ۔ قاضی صاحب