ایک پرمعانی کھانسی کھانسے۔ مگر نووارد نے ان سے آنکھیں ملاکر اورمسکراکر کہا قاضی صاحب آپ اس نبی کے الہاموں پر ہنسی نہ اڑائیں۔ میں ایک دو ٹکریں لگالوں۔ نمازکے بعدچاء موجود تھی۔ چاء پر بیٹھ کر۔
قاضی صاحب… مولوی صاحب میں نے انگریزی میںبڑے بڑے مشہور مصنفوںکے ہنسنے ہنسانے والے ناول پڑھے۔ مگر میں بقول مرزا آپ سے سچ سچ کہتاہوں کہ اس قدر گدگدی میرے پیٹ میں کسی ناول نے پیدا نہ کی۔جس قدر مرزے کے ان الہاموں نے جو آپ بیان کر رہے ہیں۔
نووارد… قاضی صاحب، مرزا قادیانی اپنے الہاموں میں حد سے بڑھ گیا۔ ورنہ جو چال وہ چلا تھا۔ اس میں اگر وہ حد کو نگاہ رکھتا تو اسے بڑی کامیابی ہوتی۔ اس نے اپنے افعال و اقوال میں بڑا چھچھوراپن دکھلایا اور اس سے وہ لوگوں کی نظر سے گر گیا۔
قاضی صاحب… مولوی صاحب وہ کس طرح؟
نووارد… قاضی صاحب جن دنوں مرزے نے آریوں اور پادریوں سے مباحثات کرنے کا دم مارا اوربراہین احمدیہ لکھی۔ اس وقت مسلمان پادریوں اورآریوں سے بھڑکے ہوئے تھے اور خود سے چاہتے تھے کہ ہم میں سے بھی کوئی ایسا ہو کہ ان کو سخت الفاظ میں جواب دے۔ براہین احمدیہ میں جب اس نے الہام درج کئے توجہلاء تو ان کو سمجھے ہی نہیں۔ لیکن جو علماء بھی سمجھے انہوں نے بھی یہ کہا کہ ہماری بلا سے جھوٹے الہام اگر گھڑتا ہے۔ تو ان کاذمہ دار وہ خود ہوگا۔ ہماری طرف سے آریوں اور عیسائیوں کو جواب دینے کے لئے توکھڑا ہواہے۔ لیکن مرزے نے یہ دیکھ کر کہ بہت سے مسلمان میرے پیچھے لگ گئے ہیں۔ ان سے بیعت لینی شروع کی کہ جو میری بیعت نہ کرے وہ کافر ہے۔
اب علمائے دین کی آنکھیں کھلیں کہ ہیں یہ کیاہوگیا اور ہم کس خیال میں رہے۔ مگر وقت گزر چکاتھا۔ علمائے دین نے دوڑ دھوپ کرکے اس کی نسبت خود ہی کفر کا فتویٰ نہ دیا۔ بلکہ عرب تک سے کفر کا فتویٰ اس کے حق میں لکھوالائے۔ مگر یہ بعد از وقت ثابت ہوا۔ جو لوگ بیعت کر چکے تھے۔ وہ ضد پر کھڑے ہوگئے کہ ہیں ہمارے پیر و مرشد کو کوئی کافر کہے۔اس پرمرزے نے اپنا پایہ ان کی نظروں میں اوربھی بڑھانا شروع کیا اورمرید ان کے کچھ اعتقادات سے اورکچھ مرزے کے مخالفین کی ضد سے امنا وصدقنا کے کوئی دوسرا لفظ زبان پر نہ لائے ۔ یہ وجہ مرزے کے