(۴)مرزا قادیانی باوجودیکہ متوکل علی اﷲ ہونے کے مدعی اور الہام’’الیس اﷲ بکاف عبدہ‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰، خزائن ج۲۲ص۲۱۹ ) کے تسلی یافتہ ہیں۔ لیکن مقدمہ میں جو حوصلہ آپ نے دکھلایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ خدا نے مجھے کہا کہ ’’لاالہ الا انا فاتحذنی وکیلا‘‘(تذکرہ ص۴۸۲طبع سوم) لیکن’’جری اﷲ فی حلل الانبیائ‘‘(حقیقت الوحی خاتمہ ص۸۱، خزائن ج۲۲ ص۷۰۷)کوایک دن بھی عدالت میں تنہا پیش ہونے کاحوصلہ نہ ہوا۔ جب تک کہ دائیں بائیں آگے پیچھے وکلاء کی جماعت ہمراہ نہ ہوتی تھی۔عدالت میں جانا محال تھا۔ اگر خدا کی طرف سے تسلی مل چکی تھی کہ آپ فتح یاب ہوںگے اور یہ بھی خدا ہی تمہاری امداد کو کافی ہے اور پھر صریح فرمان ہے کہ میں ہی خداہوں۔ مجھے وکیل بنایا۔ توپھر مرزا قادیانی کو کیا ضرورت تھی کہ وکلاء کی امداد حاصل کرتے؟
یہ تو صریح خدا کی نافرمانی ٹھہری اورپھر یہ نہیں تھا کہ آپ کے مقابل فریق کے ساتھ کوئی جماعت وکلاء تھی۔ بلکہ سچ پوچھو تو آیت مذکورہ پر مولوی صاحب مستغیث نے پورا عمل کیا کہ ہر ایک موقعہ پر اکیلے پیش ہوتے رہے۔ ادھر جماعت وکلاء کی ہوتی تھی اورادھر وہ مردخدا اکیلا سینہ سپرہوکر مقابلہ کرتاتھا۔پھر ناظرین خود انصاف کر سکتے ہیں کہ فریقین میں سے متوکل علی اﷲ اور موید من اﷲ کون ٹھہرا؟
اورنیز اگر بجز وکلاء کے حوصلہ نہ بندھتاتھا۔ تو پھر اپنے دونوںحواری خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ہی کافی تھے۔ ان پر بھروسہ نہ کیا۔ مسٹر اوگارمن صاحب مسٹر اور ٹیل صاحب اوربالآخر مسٹر بیچی صاحب کو بھی اپنا مددگار بناناپڑا۔ بھائیو یہ سوچنے کا مقام ہے۔ خوب غور کرو۔
مثنوی
ہر کہ رابا شد توکل براﷲ
غیر را ہرگز نیارد درپناہ
میر زارا گفت رب جلیل
من خدایم بس مرا میداں وکیل
حاجت خواجہ کمال الدین چہ بود
راست گو مرزا توکل اینچہ بود
اے عجب مرشد گرفتار بلاست
حامی و شافع مرید باصفاست
ویں عجب ترچون مسیحائے زمان
از نصاریٰ جوید امداد و امان
اورمیٹل وگارمن کرون وکیل
روئے پیچیدن زفرمان جلیل
حل ایں عقدہ نیا ید درخیال
ہست از مرزائیاں مارا سوال