اتحاد میں ہے۔ جو کسی مخلوق کو معلوم نہیں۔ تو اس سے نکلا اوراس نے تمام سے تجھے چنا۔
(کتاب البریہ ص۷۵، خزائن ج۱۳ص۱۰۱)
بیوی جی تمام دنیا میں نہیں اسی ہندوستان میں اورعین مرزے کے زمانہ میں سرسید مرحوم و مغفور وہ شخص گزرا کہ جس نے اسلام کی ڈوبتی ناؤ بچالی۔ اس کے سینہ میں اسلام اور اسلامیوں کا ایسا درد تھا کہ جب ان پرزوال آتے دیکھا تو گھر کا اسباب تک فروخت کرکے اور قرضہ روپیہ لے کر ولایت پہنچا اور ایک مدت دراز وہاں رہ کر اسلام اور اسلامیوں کی ولالت میں خطبات احمدیہ لکھ کر اسلام کے دشمنوں کو ایسے معقول جواب دیئے کہ بڑے بڑے فاضلوں کو سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اسلام کے چہرہ سے تمام داغ دور کرکے خلقت کو اس کا چاند سا منہ دکھادیا۔ مرزے کو چننے کے وقت خدا کی آنکھوں پر شاید نزول الماء اتر آیاتھا کہ اس کو سرسید جیسا اسلام کا دردمند اوردیانت دار اورقابلیت سے مخالفوں کو جواب دینے والا تونظر نہ آیا۔ نظرآیا تو کون؟ لوگوں کا روپیہ ہضم کر جانے والا۔ کتابیں اور تصویریں بیچنے والا۔ غیروں کے بزرگان دین کو گالیاں دے کر بانیٔ اسلام اور آپ کی ازواج مطہرات کی نسبت ناپاک کلمات کہلوانے والا۔ مباحثات میںقرآن سے باہر نکل جانے والا اورجھوٹے الہام گھڑنے والا۔ بیوی جی سرسید مرحوم ومغفور کا تھوڑا سامقابلہ اس خدا کے چنے کے ساتھ کرکے دکھاتاہوں۔
۱… سرسید آنحضرت ﷺکا نواسہ ایک بڑاآدمی تھا۔لاکھوں روپیہ اس نے اپنے ذاتی رسوخ سے پیدا کرکے اسلام کی بہتری کے لئے خرچ کر دیا اورمرا تو نانا کی طرح گھر سے کفن نہ نکلا۔
آنحضرتﷺ کا بروزاورمظہر۱؎ تام غربت اورقرضداری کی حالت میں بڑا ہوا اور ۶۸ سال نبوت کرکے لاکھوں روپیہ نقد اورزیورات اورجائیداد کی صورت میں چھوڑ گیا اوراپنی عیش پر جو کچھ خرچ کر گیا وہ علاوہ۔
۲… حکام وقت نے چاہا کہ آنحضرتﷺ کے نواسہ کو ایک لاکھ روپیہ کی جاگیر جو ایک مسلمان رئیس کی ضبط کی ہوئی تھی،دلادیں۔ مگر اس مرد خدا کو گوارہ نہ ہوا کہ ایک مسلمان کی ضبط شدہ جاگیر حاصل کرے اورحکام سے عذر کردیا کہ میراارادہ ہندوستان میں رہنے کا نہیں۔ اس لئے میں یہ جاگیر لینا نہیں چاہتا۔
۱؎ ’’جب مجھے شادی کا الہام ہوا۔ تو اس سے مجھے فکر پیدا ہوا کہ شادی کے اخراجات کیونکر میں انجام دوںگا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں اورنیز کیونکر میں ہمیشہ کے لئے اس بوجھ کا متحمل ہو سکوں گا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۳۵، خزائن ج ۲۲ص۲۴۷)