سوال منجانب پادری صاحبان… ’’جہاں چھ ماہ تک سورج نہیںچڑھتا۔روزہ کیونکر رکھیں۔‘‘
(جنگ مقدس ص۱۷۷، خزائن ج۶ ص۲۷۷)
جواب منجانب مسیح موعود(امام الزمان)… ’’اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر ان کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے۔ تو انسانی قویٰ کی جڑ جو حمل کازمانہ ہے۔ مطابق کرکے دکھلاناچاہئے۔پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاؤں میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہئے۔ اگر ان کے حساب کی تو دو سو چھیاسٹھ برس تک بچہ پیٹ میں رہنا چاہئے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے۔لیکن دو سو چھیاسٹھ برس تک بچہ پیٹ میں رہنا چاہے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے۔ لیکن دو سو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا۱؎ کچھ بعید از قیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دن کی یہی مقدار ہے اور اس۲؎ کے مطابق ان کے قویٰ بھی ہیں۔‘‘
قاضی صاحب… لاحول ولاقوۃ۔لاحول ولاقوۃ سوال یہ کہ قرآن سے ثابت ہے کہ روزہ طلوع آفتاب سے پہلے جو صبح صادق ہوتی ہے۔ اس وقت سے رکھنا چاہئے اور اس کو رات پڑ جانے تک تمام کرنا چاہئے۔ پس جس ملک میں چھ ماہ تک سورج نظر نہ آوے۔ یا چھ ماہ تک وہ غروب نہ ہو۔ تو وہاں روزہ کس طرح رکھاجاوے اورجواب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے دن اوررات چھ چھ ماہ کے ہیں۔ تو وہاں کے لوگ اپنی ماں کے پیٹ میں بجائے نو مہینے کے دو سو چھیاسٹھ برس رہتے ہوں گے اور چونکہ بچہ جس قدر زیادہ مدت اپنی ماں کے پیٹ میں رہے گا۔ اسی قدر اس کے قویٰ مضبوط ہوں گے۔ اس لئے اس ملک کے لوگ چھ ماہ تک بھوک، پیاس بھی برداشت کر سکیںگے۔ اس جواب میں توامام الزمان نے کمال کردکھایا۔ مولوی صاحب مرزے کے امام الزمان اورمسیح ہونے میں اب مجھے ایک رتی برابر بھی شک نہ رہا۔ آپ کھانے کی طرف متوجہ ہوں۔
بابوصاحب… حق بات یہ ہے کہ مرزے سے اس سوال کا جواب بن نہیں پڑا۔ اس لئے اس نے ایک ایسا لایعقل جواب انہیں دیا کہ مرزے کے حواریوں کی طرح جن میں گریجویٹ بھی تھے۔ پادری صاحبان بھی حیران رہ جاویں نہ اس جواب کو سمجھیں نہ جواب الجواب اب دے سکیں۔
۱؎ یہ بھی وہی ہوئی کہ پر کوئی مجھ کو تو سمجھاوے کہ سمجھاویںگے کیا؟
۲؎ مرزاقادیانی کے خیال میں وہاں راون آباد ہیں۔ سبحان اﷲ وبحمدہ۔