کسرصلیب جس کے واسطے خدا نے اپنے منہ بولے بیٹے کوبھیجاتھا اورجو اس کا مشن تھا۔ اس کے خدا نے اسے کیابتایاتھا؟ جب یہ اپنے خداکے فریادی گیا تو اس نے اس کے آنسو یوں پونچھے کہ جاؤ۔ا گر دجال خدا کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کو خدا بنانے سے توبہ نہ کرے گا۔ توہم ان ہزاروں میں سے ایک کو پندرہ ماہ تک کوئی داؤ لگاکر مار دیںگے۔سردست ہم کچھ نہیں کرسکتے۔اس کی عمر کے کئی سال باقی ہیں۔ اچھا اگر وہ پندرہ ماہ میں مر جاتا توکیاہوتا؟
مرزے کا خبردینے والا خدااورعالم الغیب ثابت ہوتا۔ مسلمانوں میں فرقہ ناجیہ کا پتہ چل جاتا اورخدا کا منہ بولابیٹا بننے والے کی بے عزتی نہ ہوگی۔ دیکھو یہ خداکامنہ بولا بیٹا(استفتاء ص۱۹، خزائن ج۱۲ ص۱۲۷) پرلکھتا ہے:’’چنانچہ سب سے پہلے امرتسر میں انہوں نے محض سفلہ پن کی راہ میں خلاف واقعہ شورمچایا۔ گلی کوچہ میں آتھم کو ساتھ لے کر وہ زبان درازیاں کیں کہ جیسے انگریزی عملداری اس ملک میں آئی ہے۔ اس کی نظیر کسی وقت میں پائی نہیں جاتی اورصرف اسی پراکتفا نہیں تھی۔ بلکہ پشاور سے لے کر بمبئی ،کلکتہ،الہ آباد وغیرہ میں۔‘‘ الخ!
بابوصاحب … (ہنسی روک کر)اجی کہہ رہا ہے کہ مرزے نے جو لکھا ہے کہ میں حیران تھا کہ اس مباحثہ میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا۔ تو یہ حیرت مرزے کی ۶؍ستمبر کو رفع ہو گئی ہوگی؟
نووارد… اچھابابوصاحب اب جبکہ اس مسیح کو اپنے ہی قراردادہ دجال کے مقابلہ میں ایسی ذلت نصیب ہوئی کہ عمل داری سرکاری میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ توفرمائیے کہ اس کی گیارہ پچھلی یا پچھلی نو باتوں میں سے کون سی صحیح ثابت ہوئی۔
بابوصاحب… ایک بھی نہیں۔
نووارد… غریب مسلمانوں نے اس پہلوان کو دودھ اورملائیاں کھلا کھلاکرپالا اور پہلے ہی اکھاڑہ میں چاروں شانے چت کر گیا۔ اگرچہ کمر کی مٹی پونچھ کر اس نے اپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں ڈال دی کہ میری پیٹھ نہیں لگی مگرغیر جانبدار ہزارہا اس کشتی کو دیکھ رہے تھے۔وہ کس طرح مانتے؟
قاضی صاحب… یہ کس طرح؟
نووارد… اجی چند روز تک تو شرمندگی اوررنج کے مارے گھر سے باہر نہ نکلا۔آخر نکلا تو اس کی یہ تاویلات سوچ کر نکلا۔ یعنی کبھی کہا کہ آتھم نے عین مباحثہ میں قریباً ستر آدمیوں کے سامنے اپنا کان پکڑ کرزبان باہر نکال دی تھی کہ میں نے آنحضرتﷺ کو اپنی کتاب میں دجال نہیں لکھا۔ یہی اس کی توبہ تھی۔ اس پر خدا نے اسے مہلت دے دی۔ قاضی صاحب میعاد پندرہ ماہ گزر جانے کے بعد ایسا کہنا کیسا نامعقول عذرہے اور ایمانداری سے کس قدر دور ؟