جس طرح ہو مال کچھ کھاجائیے
کچھ نیا اب شعبدہ دکھلائیے
ہوکوئی کیسا ہی گرچہ بدمعاش
میوئہ زر کی وہ دے دے ان کو قاش
پھر تو وہ مقبول رحماں ہے ضرور
ان کے دل کو اس نے پہنچایا سرور
متقی ان کو نہ دے توہے شقی
جو شقی دے ان کووہ ہے متقی
ہیں امیروں سے بڑھاتے میل جول
کرکے تعریفیں اڑالیتے ہیں مول
جو کوئی دے ہاتھ کر دیں گے دراز
اس قدر ہے ان کے دل میں حرص وآز
ہیں امیر اورلیتے ہیں صدقہ زکوٰۃ
دین داری کی نہیں ہے کوئی بات
علم ہے دنیا کمانے کے لئے
دولت دنیا ہے کھانے کے لئے
دل میں اپنے منفعل ہوتے نہیں
ہنستے رہتے ہیں کبھی روتے نہیں
غیظ میں بدمست ہو جاتے ہیں وہ
اپنی چالاکی پر اتراتے ہیں وہ
اپنی تعریفوں سے بھرتے ہیں کتاب
آیت قرآن ہیں گویا ان کے خواب
قاضی صاحب یہ نظم مسدس حالی کی طرح تمام صحیح قصوں اورروایتوں سے پر ہے اور جب تک وہ قصے معلوم نہ ہوں اس کا پورا لطف نہیں آسکتا۔ الذکر الحکیم کے ص۷۲ پرداکٹر صاحب نے کچھ تھوڑی سے باتوں پرروشنی ڈالی ہے۔
قاضی صاحب… مولوی صاحب یہ توگھر کے بھیدی نے لنکاڈھادی۔ آپ نے جو جو اعتراض مرزے پر کئے ہیں۔ اس نظم نے ان کی تصدیق کردی۔ یہ نظم میں مقبول کو حفظ کراؤں گا۔
بابوصاحب… مولوی صاحب کیا پادری آتھم والا قصہ آپ ختم کربیٹھے؟
نووارد… بابوصاحب اس پر میں کچھ اوربھی بیان کرتاہوں۔ مگر اسے جتنا بھی چھانو گے کرکلاہے۔ سنئے!مرزے کے دعوے یہ تھے:
۱… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا عقیدہ غلط ہے۔ لیکن
۲… عیسیٰ کے آنے کاقصہ ایسا صحیح ہے کہ اس کا نہ ماننا انسان کو کفر تک پہنچا دیتاہے۔لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود نہیں آئیںگے۔ان کی خوبوپر کوئی آئے گا۔
۳… وہ آنے والامسیح میں آگیا۔جو مجھے نہ مانے وہ کافر ہے۔
احادیث میں جوآیاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میںآکر دجال کو قتل کریں گے۔ سو