دجال کے درمیان جنگ میں مگر اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزا اگر اپنے اس قول میں جھوٹا نہیں تھا کہ قتل دجال سے مراد تلوار یا نیزہ سے قتل کرنا نہیں بلکہ اس سے مراد ہے دلائل و حجج سے اس پرغالب آنا۔ توپھر کیاوجہ ہے کہ آریاؤں سے ٹکرلگائی۔ تواپنے خدا کے پاس پہنچا اورپنڈت لیکھرام کے قتل کا پروانہ لکھوادیا اورپادریوں (بقول خود دجال) سے مباحثہ ہوا۔ تو اپنے خدا کے پاس فریادی بھاگاگیا اوردجال کے قتل (موت قبل از اجل)کاحکم حاصل کرلایا۔
لطیفہ… کہتے ہیں کہ کسی شخص کے گھر میں ایک چور داخل ہوا۔ اسباب چوری کرکے اپنے کمبل میں باندھ رہاتھاکہ مالک مکان بیدار ہوگیا۔ چور یہ دیکھ کر بھاگ پڑا۔ مالک مکان نے اس کاپیچھا کیا۔ اب آگے آگے چور اور پیچھے پیچھے مالک مکان۔ کہ کہتاجاتا ہے کہ لوگو دوڑ و پکڑو چور چورہے۔ چورغصہ میں آکرکھڑا ہوگیا اورکہنے لگا۔ او بے شرم! چار روپے کا کمبل میرا تیرے گھر رہ گیا۔ ابھی چور میںہوں؟ غضب خداکا مرزا قادیانی عیسائیوں سے بحث کرتے ہیں تو ان کے قتل کا حکم حاصل کرتے ہیں ۔ آریہ سے ٹکر لگاتے ہیں۔ تواس کے قتل کا پروانہ لاتے ہیں۔ علماء اسلام سے تنگ آتے ہیں توان کی موت اورذلت کے الہام دھڑادھڑ اتارتے ہیں۔ کوئی انہیں دختر نہیں دیتا تو اس کی اوراس کے داماد کی موت کے الہام اترتے آتے ہیں۔ طاعون کے قتل عام کو اپنی دعاؤں کااثر بتاتے ہیں۔ شکر اﷲ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں۔ کچھ بنیں طاعون کی صورت کچھ زلازل کے بخار اورسرکار کو کہتے ہیں کہ یہ مسلمان مجھ پرایمان نہیں لاتے۔ ایک خونی مہدی کے منتظر ہیں۔ بابوصاحب کوئی مہد ی بلاتمیز ہندو، مسلمان،بلاتمیز نیک وبد عورت ومرد، بلاتمیز بوڑھا جوان اتنے خون کرے گا جتنے اس مرزے نے خداسے طاعون اور زلزلے مانگ کر کرا دیئے۔ قاضی صاحب کسی شاعر نے کہا ہے:
ہوں میں حرف درد جس پہلو سے الٹودرد ہے
اس مرزے کو بھی جس پہلو سے الٹوجھوٹا ہی جھوٹا ثابت ہوتاہے۔بابوصاحب آپ کے مکان کی چھت نئی ہے یا پرانی؟
بابوصاحب… ہنس کر۔اجی چھت ہے تو مضبوط مگر ان آسمان پھاڑنے والے جھوٹوں کی کہاں تاب لائے گی۔
نووارد… بابوصاحب مرزے کے دہلی والے خسر نے اس کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے۔ اگرچہ اس کاایک ایک شعر قصہ طلب ہے۔ مگر تاہم لطف سے خالی نہ ہوگا۔
قاضی صاحب… بابوصاحب قصیدہ ضرور سنادیں۔ خاص کر گھر کے بھیدی کا۔