معلوم۔پس مرزے کے مستجاب الدعوات ہونے کو نہ ماننا گناہ عظیم ہے۔ کیونکہ یہ اس کا نشان (معجزہ)تھا۔
بابوصاحب آپ شاید یہ کہیں کہ مرزے نے طاعون کے رفع دفع ہونے کے لئے دعا تو بیشک کی۔ مگرخدا نے مرزے کوکچھ جواب تو نہیں دیاتھا۔ اب میں ایک ایسا قصہ سناتا ہوں کہ چودھویں صدی کا مسیح آدھا یا پونا حصہ دجال سے عہدہ برآ ہوکر اپنے خدا کے پاس فریادی گیا اور اس نے تسلی دی کہ میں اس کوآج سے پندرہ ماہ کے اندر ماروں گا۔ بشرطیکہ وہ عیسیٰ کو خدا کہنے یا اس کا بیٹا کہنے سے توبہ نہ کرے۔ بابوصاحب ہمارے مرزے کا دعویٰ تھا کہ میں مسیح اورمہدی ہوں اور دجال کے قتل کے لئے آیاہوں۔دجال پادری ہیں اورکلیں ایجاد کرنے والے اورمتمول عیسائی اور قتل سے مراد ہے دلائل سے مغلوب کرنا۔ پادری آتھم صاحب کے ساتھ مباحثہ میں ہمارے مسیح موعود کو گویادجال کے پوناحصہ سے مقابلہ کااتفاق ہوا۔ پندرہ روز تک یہ مباحثہ جاری رہا۔ جب پونا حصہ دجال نے بھی آپ سے ہار نہ مانی توآپ یوں گویاہوئے:
’’آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اورابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اورہم عاجز بندے ہیں۔تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ تواس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیارکررہا ہے اورسچے خدا کوچھوڑ رہا ہے اورعاجز انسان کوخدا بنارہاہے۔وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ماہ تک ہاویہ میں گرایاجائے گا او ر اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اورجوشخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے۔ اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اوراس وقت جب پیشین گوئی ظہور میں آئے گی۔ بعض اندھے سوجاکھے کئے جائیںگے اوربعض لنگڑے چلنے لگیںگے اوربعض بہرے سننے لگیںگے۔
(پیشین گوئی یعنی جواب خداوندی ختم)اسی طرح پر جس طرح اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے سو ’’الحمدﷲ والمنت‘‘کہ اگر یہ پیشین گوئی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ظہور نہ فرماتی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے۔ انسان ظالم کی عادت ہوتی ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتا اور باوجود سننے کے نہیں سنتااور باوجود سمجھنے کے نہیں سمجھتا اورجرأت کرتا اورسو شوخی کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا ہے لیکن اب میں جانتاہوں کہ فیصلہ کا وقت آگیا۔ میں حیران تھا کہ اس بحث