بابوصاحب اس نے نبی بننے کے لئے کیاکیاچالاکیاں کیں۔ ہمارے صدق وکذب جانچنے کے لئے ہماری پیشین گوئیاں معیار ہیں۔ معجزات یعنی کرتب نہیں۔ جانتا تھا کہ پیشین گوئیاں انسان عقل سے کر سکتا ہے۔لیکن جب آپ کے عقلی ڈھکوسلے غلط ثابت ہونے لگے تو یہ عذرات تراشے:
۱… ’’پیشین گوئیوں پر استعارات کا رنگ غالب ہوتاہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۴۰، خزائن ج۱۸ ص۴۱۸)
۲… ’’اجتہادی غلطیاں انبیاء سے بھی ہو جاتی ہیں۔‘‘ (ازالہ ص۶۹۰،خزائن ج۳ص۴۷۲)
۳… ’’یہ کہنا کہ سچے نبیوں اورمحدثوں کی تمام پیشین گوئیاں عوام کی نظر میں صفائی کے ساتھ پوری ہوتی ہیں، بالکل جھوٹ ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۲۲،خزائن ج۱۳ص۴۱)
۴… ’’پیشین گوئیوں کے اوقات معینہ قطعی الدلالت نہیں ہوتے۔بسا اوقات ان میں ایسے استعارات بھی ہوتے ہیں کہ دن بیان کئے جاتے ہیں اوران سے برس مراد لئے جاتے ہیں۔‘‘ (ازالہ دوم ص۵۶۵،خزائن ج۳ص۴۰۵)
۵… ’’وعید کی پیشین گوئیوں کا پورا ہونا بموجب نصوص قرآنیہ وحدیثیہ کے ضروری نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۸۹،خزائن ج۲۲ص۴۰۳)
۶… ’’کبھی خداوعدہ کرکے پورا نہیں بھی کرتا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۷، خزائن ج۲۲ ص۱۸۲ ملخص)
بابوصاحب اب سچی اورجھوٹی پیشین گوئیوں میں کوئی تمیز باقی رہ گئی؟قہقہہ
بابوصاحب یہ مرزا(آئینہ کمالات ص۴۹۴، خزائن ج۵ ص۴۹۴)پراپنے نشان لکھتا ہے کہ ’’میری سچائی کی صداقتوں میں سے ہے کہ خدا جل شانہ میری دعائیں قبول کرتاہے۔ میرے قولوں فعلوں میں برکت دیتاہے۔میرے دوستوں کادوست ہے اوردشمنوں کا دشمن اور لوگوں کی چھپی ہوئی باتوں کی مجھے خبر دیتا ہے۔‘‘ اب اس کی دعاؤں کا حال سن لیجئے۔
سال ۱۸۹۸ء میں جس کو آج ۲۴ سال ہوگئے۔(ایام الصلح ص۱۰۱، خزائن ج۱۴ ص۳۳۹) پر اس نے لکھا کہ: ’’میں ہمیشہ پانچوں وقت کی نمازمیں دعا کرتاہوں کہ خداتعالیٰ اس بلایعنی طاعون کو لوگوں کے سر سے ٹال دے۔‘‘ یہ کتاب اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے کی لکھی ہوئی ہے۔ مرزے کی تاریخ وفات ۲۶ ؍ مئی ۱۹۰۸ء ہے۔ اس حساب سے یکم اگست ۱۸۹۸ء سے سے ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء تک مرزے نے معمولی طورنہیں۔نمازوں میں ۱۷۹۲۰ سترہ ہزار نو سو بیس دفعہ دعا کی اورنتیجہ