اس طرح پر بہت سا وقت گزار کر جو انہیں خیال آیا کہ میں جواب کے لئے منتظر بیٹھا ہوں تو ایک بڑی لاپرواہی سے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس بیان میں خدا نے اختصار سے کام لیا ہے۔ کوئی بات بیچ میں سے چھوڑ دی گئی ہے۔ مگر یہ کہتے ہیں ہی اٹھ کھڑے ہوگئے اورفرمانے لگے کہ اس کا جواب آپ کو کل پہنچ جائے گا۔ میں نے کہا بہت بہتر مگر کس وقت؟فرمانے لگے کہ مجھے مشاغل بہت ہیں۔ فرصت بہت کم ملتی ہے۔ جس وقت مجھے تھوڑی سی فرصت ملی۔ اس کا جواب آپ کی جیب میں ہوگا۔ یہ کہہ کر تشریف لے گئے۔
نووارد… بابوصاحب آپ نے غضب کیا۔ جس وقت انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ اختصار کے لئے کوئی بات بیچ میں سے بیان کرنے سے چھوڑ دی گئی ہے۔ آپ کہتے کہ آپ کے ساتھ رعایت ہے کہ جو عبارت بھی آپ اس میں چھوڑی ہوئی خیال فرمائیں۔ اسے شامل کرکے جواب دیں۔
بابوصاحب… مولوی صاحب آپ بھی ظلم کرتے ہیں۔ میں اس طرح کہتا تو خدا جانے وہ کیا عبارت اس کے ساتھ شامل کر دیتے۔
نووارد… نہیں بابوصاحب آپ نے غور نہیں کیا۔جب بقول ان کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ خداوند میری نگرانی اس قوم کی میری موت سے تیری طرف منتقل ہو گئی۔ پھر وہ کون سی عبارت ہے کہ آگے یا پیچھے یا بیچ میں لگائی جاکر انہیں فائدہ دے گی۔یہی بات تھی جو انہیں وہ کلمہ کہتے ہی فوراً سوجھ گئی اور وہ اس خوف سے اٹھ کر روانہ ہوگئے کہ ایسا نہ ہو یہ پوچھیں کہ وہ کون سی بات ہے۔ کیونکہ اگر کوئی فی الحقیقت ایسی بات ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس بیان کی تردید کرتی ہے کہ میری اپنی قوم کی نگرانی کو میری موت نے تیری طرف منتقل کر دیا توخداوند کریم نے اس بات کے ذکر کو چھوڑ دینے میں اختصار نہیں کیا۔ بلکہ بددیانتی کی۔ (معاذ اﷲ)کیونکہ اختصار میں صرف فالتو اورغیرمتعلق باتیں چھوڑی جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ’’لاتقربوالصلوۃ وانتم سکارے‘‘ کا اختصار ’’لاتقربوالصلوٰۃ‘‘کیاجائے۔
قاضی صاحب… بابوصاحب آپ اورہم بڑی غلطی کریںگے۔ اگر ان مولوی صاحب کی طرف سے اس اعتراض کے جواب کے منتظر رہیںگے۔
بیوی… قاضی صاحب نہ ہمیں کسی سے بحث کی خواہش ہے نہ ہار جیت کی۔ میری خواہش تھی تو یہ کہ آپ کے بابوصاحب اپنے اسلام پر ایسے پختہ ہو جائیں کہ پھر کسی کے بہکانے میں نہ آجاویں اور زیادہ خوف مجھے انہی مولوی صاحب کا تھا۔ جنہوں نے اپنا تکیہ کلام یہی بنارکھا ہے کہ ابن مریم مر گیا حق کی قسم۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب وہ ان کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔