بابوصاحب… بہت سویرے؟ہمارے اسٹیمیٹ کے مطابق توآپ صاحبان دیر سے تشریف لائے ہیں۔ یہ کہہ رہی تھیں کہ آج مولوی صاحب کو نیند نہیں پڑنی۔
نووارد… بارکماسٹری والوں کے اسٹیمیٹ تو روپیہ کا سوا روپیہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اس سے سویرے کیا آتے کہ چاء بھی پی کر نہیں آئے۔
بابوصاحب… (مسکراتے ہوئے)گاموں چاء کا جلد بندوبست کر۔
نووارد… (چاء پر بیٹھ کر)اچھابابوصاحب فرمائیے۔ان اعتراضوں کا آپ کو کیا جواب ملا؟
بابوصاحب… خاک!کل میں ابھی جانے کے لئے تیاری ہی کررہا تھا کہ مولوی صاحب خود ہی تشریف لے آئے۔پہلے تو وہ اس شیطان نے ان کے ساتھ تمسخر کیا کہ آنحضرت ﷺ کی سنت تھی مرنا اورمرزا قادیانی کی سنت تھی۔ اپنے نام سے لفظ غلام ہٹادینا۔آپ نے دونوں میں سے ایک سنت بھی ادا نہیں کی۔
نووارد… خوب خوب!مگر گاموں تجھے کس طرح معلوم تھاکہ ان کے نام میں غلام آتاہے؟
بابوصاحب… ان کے دروازے پردستک دینے پر جو یہ باہر نکلا۔ تو انہوں نے اسے اپنا نام بتایا تھا کہ کہہ دے کہ فلانا آیا ہے۔
نووارد… خوب خوب!اچھا پھر اس غریب کو کچھ جواب ملا؟
بابوصاحب… نہیں کچھ نہیں۔مجھے کہنے لگے کہ آپ نے اپنے نوکر بڑے گستاخ کر رکھے ہیں۔ میں نے اس کی طرف سے معذرت چاہی اورمعاملہ رفع دفع ہوگیا۔ جواب کی نوبت نہ پہنچی۔
قاضی صاحب… پیالی چائے کی ہٹا کر اس شیطان نے سوال ہی ایسا کیا۔ اگر وہ اپنی لاجوابی کوغصہ میں نہ ٹالتے تو کیا کرتے؟
بابوصاحب… پھر میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق دونوں مقام نکال کر پیش کئے تو ان کوباربارپڑھا۔پھر ان کو بند کرکے مطبعے دیکھتے رہے کہ کن کن مطبعوں میں چھپیں اور کس کس سنہ میں۔ پھر بہت دیر خاموش رہنے کے بعد فرمانے لگے کہ میں اپنی کتابیں بھی دیکھ لوں۔ اگر ان میں بھی اسی طرح ہے تو یہ حضور علیہ السلام کی ایک غلطی ہے۔ مولوی صاحب کچھ نہ پوچھئے کہ ان کی ان حرکات و کلمات سے میں ایسا ان سے مایوس ہواکہ پھر میں نے وہ حیات و ممات والا پرچہ بدل نخواستہ ان کے پیش کیا۔ اس پرچہ کے پڑھنے میں تو ایسے مستغرق ہوئے کہ میں دیکھتا تھا کہ کبھی ان کی بھوئیں ماتھے پر چلی جاتی تھیں کبھی آنکھوں پر آٹھہرتی تھیں۔ کبھی داڑھی میں خلال تھا۔ تو کبھی موچھوں کی شامت تھی۔