سوال… اس دعوے کی دلیل؟
جواب… اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ:
’’قیامت کے دن جب خدا تعالیٰ حضرت عیسیٰ سے سوال کرے گا کہ کیاآپ نے ان لوگوں(عیسائیوں) کو کہا تھا کہ خدا کے سوا میری اورمیری والدہ کی پرستش کرو؟ تو حضرت عیسیٰ عرض کریںگے کہ خداوند! اگر میں نے کہا ہوتا تو تجھے خوب معلوم ہوتا۔ میں جب تک ان میں رہا۔ ان کے حال کا نگران رہا۔ لیکن جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھالیا(اسلامی معنی)دنیا سے اٹھا لیا (مرزائی معنی) موت دے دی توپھر تو ہی ان کا نگران حال تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جواب کا یہ حصہ کہ جب تو نے مجھے موت دے دی تو پھر تو ہی ان کانگران حال رہا۔ صاف کہہ رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی موت تک ان میں اور ان کے نگران حال تھے۔ اس بیان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اپنے حواریوں سے ۸۶ سال غائب رہ کر کشمیر میں فوت ہونے کے قصہ کو بالکل غلط ثابت کردیا اورجب واقعہ صلیب کے بعد آپ کا کشمیر جانے کاقصہ یاروں کی گھڑنت ثابت ہوا توآپ کی موت لامحالہ صلیب پرہی واقعہ ہوئی۔ کیونکہ اور کسی جگہ آپ کا آباد رہنا اورمرناثابت نہیں اور موت صلیب پر واقع ہونے سے کفارہ۱؎ ثابت ہوا۔ یا یہود کا یہ قول کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا۔ چونکہ یہ دونوں باتیں جو ثابت ہوئیں،خلاف ہیں قرآن کریم کے۔ لہٰذاثابت ہوا کہ توفیتنی سے موت کے معنے لینے والا قرآن کریم کا منکر اورخود غرض جھوٹا مسیح ہے۔
لیجئے !بابوصاحب ہم رخصت ہیں۔ آپ جانیں اورآپ کے مرزائی۔ یہ کہہ کر نووارد اور قاضی صاحب سلام علیک وعلیکم السلام کہتے ہوئے رخصت ہوئے۔
دوسرا دن دروازہ پر دستک۔
گاموں… آئیے آئیے آؤ لنگھ آؤ۔ جی آیاں نوں۔
نووارد… گاموں بابوصاحب نے چاء پی لی؟
گاموں… نہیں جی اجے تے جانو نے گائیں بھی نہیں چوئی۔نووارد اور قاضی صاحب اندر داخل ہوکر سلام علیک وعلیکم السلام کے بعد۔آج ہمارا بہت سویرے تکلیف دینا معاف رکھئے گا۔
۱؎ ’’لاتزروازرۃ وزراخرٰ (پ۸ع۷)‘‘{اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر نہیں لے گا۔}