نووارد… بابوصاحب آپ غور فرماویں اگر کوئی شخص ہم سے کہے کہ تمہارا کان کتا لے گیا۔ تو ہم اپنے کان کو دیکھیں گے یا کتے کے پیچھے دوڑ پڑیںگے؟ ایک شخص ہمیں کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو۱۸۰۰سال ہوگئے فوت ہوچکے اورآنے والا عیسیٰ میں ہوں۔ جو اس کی خوبو پر آگیا۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ۱۸۰۰ سال کے قصہ کو لے بیٹھیں۔ ہم کیوں نہ اس سے کہیں کہ بتا تجھ میں کون سی عیسیٰ کی خوبو ہے کہ جھگڑا فوراً ختم ہو جاوے۔اگر عیسیٰ علیہ السلام کی خوبو وہ اپنے میں بتائے تو ہم اس کو دونوں آنکھوں پر قبول کرلیں اوراگر نہ بتاسکے توہم اسے کہیںکہ شکل گم کر تو جھوٹا ہے۔ معاملہ دو منٹ میںطے ہوگیااور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ بالضرور مسلمانوں کے عیسیٰ علیہ السلام والی باتیں اپنے میں ثابت کرکے دکھاوے۔
نہیں،عیسائیوں کے عیسیٰ علیہ السلام میں جو باتیں اس نے ثابت کی ہیں۔ انہی کا ثبوت اپنے میں دیوے۔تب بھی ہم اسے عیسیٰ مان لیںگے۔تو ہمارے عیسیٰ علیہ السلام کی خوبو اپنے میں دکھاوے اوراگرعیسائیوں کے مسیح کی خوبو رکھنے کامدعی ہے تو عیسائیوں کی طرف جاوے۔ ہم سے اس کا کچھ سروکارنہیں۔
بابوصاحب میری اس تقریر سے یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ مسئلہ حیات وممات مسیح میں ہم کمزور ہیںاور مرزائی غالب۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔بلکہ وہ بیوقوف ہیں کہ یہ مسئلہ ہم سے چھیڑتے ہیں کیونکہ اس بحث میں اپنے دعوے کی جو وہ دلیل دیتے ہیں۔ وہی اس دعوے کا قلع قمع کر دیتی ہے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پراٹھایا جانا ثابت کرتی ہے۔ میں اس کو پہلے بھی مگر لمبی عبارت میں بیان کر چکا ہوں۔ شاید آپ نہ سمجھے ہوں۔اب مختصراً آپ کو سمجھاتاہوں۔ غور سے سنئے! اور عمر بھر یاد رکھئے۔
نووارد کا یہ کہناتھا کہ حاضرین سب کے سب ہمہ تن گوش ہوکر نووارد کے بالکل قریب آ بیٹھے اور قاضی صاحب کو بھی رخصت ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا بھول گیا۔
نووارد… بابوصاحب مرزے کا دعویٰ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ صلیب سے اتارے گئے۔ تین دن قبر میں مدفون رہے۔پھر قبر سے نکالے گئے اورحواریوں سے اپنے صلیبی زخمات کا علاج کراکر کابل کے رستہ کشمیر چلے گئے اور۱۲۰ سال کی عمر پاکر یعنی ساڑھے ۸۶سال بعد کشمیر میں فوت ہوگئے۔
اوراس دعوے کی دلیل یہ کہ قیامت کے دن جب خداتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ان عیسائیوں کو کہا تھا کہ خدا کے سوا میری اورمیری والدہ کی بھی پرستش