نووارد… بابوصاحب بے ادبی معاف!آپ جیسے ٹل کے ایک اسٹیشن ماسٹر صاحب جو مرزائی تھے۔درثمین میں دس شرائط بیعت پڑھ رہے تھے تو انہوں نے بنی نوع کو نبی نوح پڑھا۔ ایک اور صاحب نے جو ایک باتری میں ہیڈ کلارک تھے اور ہیں۔ مجھے ایک خط لکھا اس میں یہ شعر لکھا: خشت اوّل چوں نہد معمارکج …الخ۔ ایسے مریدوں کے لئے تو مرزا واقعی علامہ دہر تھا۔
قاضی صاحب… بابوصاحب یہ تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے مولوی صاحب کوئی دعوے بے دلیل نہیں کیا کرتے۔
بابوصاحب… قاضی صاحب اگر آپ ساعالم فاضل یہ دعوے کرے تو لوگ مان لیں۔ لیکن ہمارے مولوی صاحب تو نام کے مولوی ہیں۔ ہمیشہ دفتر انگریزی میں کلرکی کرتے رہے۔
قاضی صاحب… ہاں!مگر ایسے شخص کا مرزے کی تحریرات میں غلطیاں پکڑنامرزے کے لئے زیادہ ہی خفت کا باعث ہوگا۔
بابوصاحب… کیوں مولوی صاحب بس اورقاضی صاحب آپ بھی بس۔ اچھا گاموں اٹھا۔چاء کے برتن اٹھائے جانے کے بعد۔
بابوصاحب… اچھا مولوی صاحب اب ہمارا انتظار رفع کرائیں۔
نووارد… بابوصاحب مرزے کا اردو نہ جاننا کچھ جرم تو نہیں۔ لیکن چونکہ اس میں بھی اس کا ایک جھوٹ ثابت ہوتاہے۔ اس لئے میں اس میں اردو کی اغلاط بیان کرتاہوں۔
اس شخص نے (نزول المسیح ص۵۶، خزائن ج۱۸ص۴۳۴)پرلکھا :’’کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں۔ تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘ اوراندر سے تعلیم دینے والے کی بابت (ص۹۳آئینہ کمالات،خزائن ج۵ص۹۳)پرلکھتا ہے: ’’اس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے معلوم ہے کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی ہے۔‘‘ اب مرزے کے روح القدس کی اردو سن لیں۔
سب سے اوّل یہ کہ مرزا نے ہمیشہ کہ بیانیہ کی جگہ ’’جو‘‘ جو اردو میں حرف صلہ ہے۔ استعمال اغلاط کیا ہے۔ ’’مثلاً یہ عقیدہ رکھتے جو خدا تعالیٰ کو جزئیات کا علم نہیں۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۲۸، خزائن ج۲۰ص۲۲)اس غلطی سے اس کی تمام کتابیں بھری پڑی ہیں۔
دوسری عام غلطی اس کی یہ ہے کہ ’’تاکہ‘‘ کی جگہ ’’کہ تا‘‘یا صرف’’تا‘‘دیکھو:
(سرمہ چشم آریہ ص۱۶۶، خزائن ج۲ص۲۱۴، آسمانی فیصلہ ص۱۴، خزائن ج۴ ص۳۳۳)
دیگر اغلاط کے کچھ نمونے سنئے: