قاضی صاحب قرآن شریف۱؎میں اﷲ تعالیٰ نے بعض اوقات کسی کے تذکرہ میں جو کچھ اس نے بیان کیا ہوتاہے۔ اسی طر ح بیان کر دیتا ہے۔ مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں بیان کرتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے پیمانہ بنیامین کی بوری میں رکھوادیا۔پھر ان کے ایماء سے ایک پکارنے والے نے پکارا کہ قافلے والو تم ہی چور ہو۔ انہوں نے دریافت کیا کیا گم ہوگیا؟ تو اس کے جواب میں اس نے کہا کہ شاہی پیمانہ نہیں ملتا۔
اسی طرح حضرت ابراہیم خلیل اﷲ کے قصہ میں ہے کہ ان لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ہمارے بتوں کو کس نے توڑا؟توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاکہ بڑے بت نے چھوٹے بتوں کوتوڑا۔ لیکن مرزا قادیانی کی پیشین گوئیاں جب جھوٹی نکلیں۔ توآپ نے (پارہ۲۴رکوع۹) میں جواﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا لوگ ارادہ کرنے لگے تو ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو مخفی رکھے ہوئے تھا۔ کہا کہ اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا عذاب خود اٹھائے گا اوراگر سچا ہے تو جن جن عذابوں کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے۔ان میں سے کوئی نہ کوئی تو تم پر ضرور آنازل ہوگا،کے حوالے سے مسلمانوں سے یوں فرمانا شروع کیا’’چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے :’’ان یک صادقا‘‘(نشان آسمانی ص۳۱،خزائن ج۴ص۳۹۴)اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے ’’وان یک کاذبا‘‘(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۵۶ ، خزائن ج۲۲ص۱۶۰)جیساکہ اﷲ تعالیٰ آپ فرماتا ہے:’’وان یک کاذبا‘‘(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۰،خزائن ج۲۲ص۵۶۷)
اب دیکھو خدا تعالیٰ نے بعض کا لفظ اس جگہ استعمال کیا نہ کل کا (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱،خزائن ج۲۲ص۵۶۷)پس نص قرآنی سے ثابت ہے کہ عذاب کی پیشین گوئی کا پورا ہونا ضروری نہیں۔(ص۱۳۱تتمہ حقیقت الوحی،خزائن ج۲۲ص۵۶۸)قاضی جی یہ کتنی بڑی خود غرضی ہے کہ ایک امتی کے قول کو خدا کا قول کہا جاتا ہے۔ وہ غریب اس سے بڑھ کر کیا کہہ سکتاتھا؟
مخفی ایمان لائے ہوئے بھی شاید اس کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہوںگے۔ وہ نہ پیغمبر تھا نہ ملہم تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کی جان بچانے کے لئے جو کچھ اس نے اپنی عقل وسمجھ کے موافق کہا وہ اﷲ تعالیٰ نے بیان کردیا۔خدا نے نہ اس کے لفظ لفظ کی تصدیق کی نہ تکذیب۔ اگر مرزایوں لکھتا کہ قرآن میں آیا ہے تو بھی دھوکے کی حد تک تھا۔ مگر اس کا یہ کہنا کہ ’’جیسا کہ اﷲ تعالیٰ آپ فرماتاہے‘‘،دھوکے سے کچھ بڑھ کر ہے۔
۱؎ پ۱۶ع۳ میں ہے کہ ذوالقرنین نے سورج کو کالے کیچڑ کے کنڈ میں ڈوبتے دیکھا